قائداعظم،تحریک پاکستان اورعلامہ اقبالؒ کا خطبہ الہ آباد

قدرت اللہ فاطمی

میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ میں شروع ہی میں یہ واضح کر دوں کہ تحریک آزادیٔ پاکستان سے میری کیا مراد ہے یوں تو یہ تحریک برعظیم جنوبی ایشیاء کی آزادی کی جدوجہد ہی کا ایک حصہ تھی اور قائداعظم اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی دور میں جب انڈین نیشنل کانگریس کے ممتاز لیڈر کی حیثیت سے ہندوستان کو برطانوی تسلط سے نجات دلانے کے لئے سرگرم عمل تھے تو وہ یقینا اس وقت بھی پاکستان کی آزادی کی بنیادیں استوار کر رہے تھے، لیکن بالواسطہ طور پر۔ اسی طرح برعظیم کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے حصول کے لئے 1906ء سے آل انڈیا مسلم لیگ نے جو آئینی جہاد شروع کر رکھا تھا وہ بھی تحریک آزادی پاکستان کا ایک حصہ تھا لیکن محض ضمناً۔ پاکستان کی آزادی کی تحریک صحیح معنوں میں، راست، بلاواسطہ اس وقت شروع ہوئی جب مسلم لیگ نے قائداعظم کی رہنمائی میں برطانوی ہند کے پاکستانی صوبوں کی سیاسی سربلندی ان کی آئینی ترقی اور جمہوری ارتقا کے لئے قدم اٹھایا۔ اس کا آغاز مئی 1924ء کے اس خصوصی اجلاس سے ہوا جو لاہور میں قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا تھا، اس زمانے میں پاکستانی صوبوں کی درماندگی اور کس مپرسی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی ۔ صوبۂ سرحد سر زمین بے آئین تھا۔ بلوچستان بارہویں تیرھویں صدی عیسوی کے نظام کی لاش کے ساتھ بندھا تھا۔ سندھ کا اپنا کوئی وجود نہ تھا۔ وہ بمبئی پریسیڈنسی کا محض حیدر آباد ڈویژن تھا، وہ بھی اس حال میںکہ بمبئی کی قانون ساز اسمبلی کا سکہ وہاں نہیں چلتا تھا، برطانوی ڈویژنل کمشنر کو مکمل آمرانہ اختیارات حاصل تھے۔ پنجاب واحد پاکستانی صوبہ تھا جسے مارلے منٹو اصلاحات اور مانیٹگو چیمسفورڈ اسکیم کے تحت سیاسی مراعات میسر تھیں۔ لیکن برطانوی ہند کے دوسرے صوبوں اور پریسیڈ نسیوں کی نسبت بہت کم۔یہاں سرفضل حسین کے قول کے مطابق پنجاب کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل تھی کہ

There is one thing that is most prominent and that is the iron heel of the exevutive.   

"(پنجاب میں) صرف ایک چیز کو امتیاز حاصل ہے اور وہ ہے انتظامیہ کے جوتوں کی لوہے کی ایڑی")

یہ توتھی سیاسی صورت حال۔ تعلیمی ، ثقافتی، صنعتی، معاشی لحاظ سے یہ صوبے اور بھی زیادہ درماندہ تھے۔ یہاں کی غالب اکثریت یعنی مسلم آبادی نہ صرف غیر مسلموں بلکہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کی نسبت بھی کہیں زیادہ تعلیمی اور معاشی پس ماندگی کا شکار تھی۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلم قیادت کو مسلم اکثریت کی اس پریشان حالی کا احساس تک نہ تھا۔ قائداعظم نے اس افسوسناک صورت حال کے تدارک کے لئے مسلم لیگ کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لی۔ اور1924ء سے لے کر1926ء تک مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پنجاب کی جمہوری ترقی، اس کی مسلم اکثریت کی دستوری ضمانت، سرحد اور بلوچستان کو برطانوی ہند کے دوسرے صوبوں کے برابر درجہ دینے اور سندھ کی علیحدگی کے مطالبات پیش کئے۔ 1927ء میں قائداعظم نے ان تمام مطالبات کو ایک جامع منصوبہ کی شکل دی جسے"دہلی مسلم تجاویز'کہتے ہیں۔ صاحب بصیرت مؤرخوں کا بجاطور پر یہ خیال ہے کہ قائداعظم کی دہلی مسلم تجاویز مطالبۂ پاکستان کا نقش اوّل تھیں۔1929ء میں قائداعظم نے ان تجاویزکو اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے سیاسی تحفظات کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اپنے مشہور چودہ نکات پیش کئے۔

1924ء سے1929ء کا یہ دور آزادی ٔ پاکستان کی تحریک کا Formative Phaseتشکیلی دور تھا۔ اس زمانے میں تحریک پاکستان کا سانچہ ڈھلا۔ اس سے اگلے سال یعنی1930ء میں مسلم لیگ کے پچیسویں سالانہ اجلاس کے خطبۂ صدارت میں علامہ اقبال نے برطانوی ہند کے پاکستانی صوبوں، پنجاب، صوبہ سرحد، بلوچستان اور سندھ پر مشتمل Consolidated North-West Indian Muslim Stateیعنی شمالی ہند کے مسلمان کی مربوط ومستحکم ریاست کا تصور پیش کیا۔ اس اعلان کے ذریعہ انہوں نے تحریک آزادی پاکستان کے سانچے میںجان ڈال دی۔ قائداعظم سیاسی سوجھ بوجھ اور علامہ اقبال کی فلسفیانہ فراست، ان دونوں کا قِران السعدین تحریک آزادی پاکستان کے لئے بہت مبارک ثابت ہوا۔ 1924سے برطانوی ہند کے پاکستانی صوبوں کی سیاسی سربلندی کے لئے جو کوششیں قائداعظم کی رہنمائی میں شروع ہوئی تھیں، انہوں نے ایک واضح نصب العین کی شکل اختیار کر لی۔ یہ تھا اس خطبۂ صدارت کا تاریخی کردار۔ لیکن یہ نہ محض تاریخی دستاویز ہے نہ صرف تاریخ ساز منصوبہ بلکہ اس کے ساتھ یہ مستقبل کے لئے ہدایت کا نہمٹنیوالا سرچشمہ بھی ہے۔

یہ مستقبل کے لئے راہ نمائے ہدایت کیونکر ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے آئیے ، ایک بار پھر 1924کی تاریخ کی طرف لوٹ چلیں۔ اس وقت 20،1921کی تحریک عدم تعاون، تحریک خلافت وہجرت کاردعمل شروع ہوچکا تھا۔ پاکستانی صوبوں نے ان تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ بلکہ لاہور نے ان تحریکات کی قیادت سنبھال کر اپنے سیاسی شعور کا بین ثبوت فراہم کر دیا تھا اور آل انڈیا مسلم قیادت کو اپنے سیاسی وجود کا احساس دلایا تھا۔ ان تمام انقلابی تبدیلیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کے فرقہ وارانہ جذبات رکھنے والے گروہ میں سراسیمگی سی پھیل گئی۔ ان کے ذہنوں پر پان اسلامزم کا ہوّا چھا گیا۔ لالہ لاجپت رائے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے شمالی ہند میں کانگریس کی سب سے زیادہ سربرآوردہ شخصیت تھے۔ انہیں ہندوستان اور خاص کر پنجاب کے ہندوئوں کو پان اسلامزم کے خطرے سے بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک طرف تو سکھوںکو اپنے ساتھ ملایا۔ دوسری طرف برطانوی ہند کی مذہبی بنیاد پر تقسیم کا منصوبہ بنایا۔ وہ جانتے تھے کہ مذہبی بنیاد پر ملک کی تقسیم کا اصول اگر انہوں نے منوالیا تو پنجاب یقینا بٹ جائے گا اور یہی وہ چاہتے تھے۔ بھائی پر مانند نے لالہ لاجپت رائے کا ساتھ دیا۔ بھائی پر مانند پنجاب کے ہندوئوں میں اس قدر مقبول تھے کہ وہ دیوتا سروپ کہلاتے تھے۔ انہوں نے ہندوئوں کی تنظیم اور ملک کی مذہبی بنیاد پر تقسیم کے پرچار کے لئے روزنامہـــ" ہندو"اخبار لاہور سے جاری کیا۔لالہ لاجپت رائے کے فرقہ وارانہ تقسیم کے منصوبے کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس  بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1940میں قرارداد پاکستان والے لاہور کے تاریخ ساز اجلاس کے خطبۂ صدارت میں قائداعظم نے لالہ لاجپت رائے کی اس تجویز کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تھا۔

برطانوی ہندکی تقسیم کے لئے لالہ لاجپت رائے اور ان کے ساتھیوں کی چھ سال پرانی تجویز کے ہوتے ہوئے حضرت علامہ کا 1930ء کا عظیم منصوبہ بالکل منفرد اور لالہ لاجپت رائے اور دیوتاسروپ بھائی پر مانند کی تجویز سے یکسر مختلف تھا۔ ان دو تجویزوں میں مابہ الامتیاز یہ وصف تھاکہ لالہ لاجپت رائے کی تجویز کی بنیاد فرقہ وارانہ جذبات، مذہبی منافرت اور خوف وخطر کے احساسات پر تھی جب کہ حضرت علامہ کے پیش نظر قرآن حکیم کی عالمگیر دعوت تھی کہ یااھل الکتاب تعالواالی کلمۃ سواء بیننا وبینکم (اے مذہبی کتاب والو آؤ ہم سب ایک مشترک کلمے پر متفق ہو جائیں) انھوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں ان تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا تھا جن کے سبب قرآنی دعوت اتحاد کے عظیم مضمرات بروئے کار نہ آسکے۔ انہوں نے اس بات پر اپنی عمیق مسرت کا اظہار کیا تھا کہ کمال اتاترک کے جمہوریہ ترکیہ اور رضاشاہ کبیر کے ایران میں وطنیت کے جذبات کے فروغ سے قرآن حکیم کے مذہبی اتحاد کے نصب العین کے حصول کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ برعظیم جنوبی ایشیاء میں اس قرآنی نصب العین کی راہ میں جو سیاسی اور فرقہ وارانہ رکاوٹیں تھیں حضرت علامہ نے اپنے خطبۂ صدارت میں ان کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے اس خطبہ کا ایک عجیب وصف یہ ہے کہ اس میں وقتی سیاست اور پائیدار سیاسی اقدار دونوں باہمدگرپیوست ہیں۔ لیکن اس کا یہی وصف اس کے سمجھنے کی راہ میں مشکلات بھی پیدا کرتا ہے۔ وقتی سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ نے برطانوی ہند کے امن واستحکام اور اسلام کو شہنشاہیت کے اثرات بد سے پاک کرنے کی ضرورت پر بصیرت افروز خیالات پیش کیے ہیں۔ اور اپنی حکیمانہ بحث کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ان کے اس تاریخی خطبۂ صدارت کی جان ہے اسے خودا ن کے اپنے الفاظ میں سماعت فرمائیے وہ فرماتے ہیں:۔

Thus it is clear that in view of India`s infnite variety in climates, races, Ianguages, creeds and social systems the cresteon of autonomous states based on the unity of Language race, history, religoion and identity of economic interests is the only possible way to secure a stable constitutional structure in Inda"

علامہ کے ان ارشادات کا ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا کہ"الغرض یہ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں موسموں، نسلوں ، زبانوں، عقیدوں اور معاشرتی نظاموں کے لامنتاہی تنوّع کے پیش نظر ہندوستان کے لئے مستحکم دستوری ڈھانچہ بنانے کی واحدممکن راہ یہ ہے کہ زبان، نسل، تاریخ اور مذہب کی وحدت اور معاشی مفادات کے ایک ہونے کی بنیاد پر خود مختار ریاستیں قائم کر دی جائیں"۔

علامہ کے خطبہ صدارت کے اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ تقسیم کی ان کی پیش کردہ تجویز سراسر جمہوریت کے مسلّمہ اصولوں پر مبنی تھی اس لئے وہ لاجپت رائے کی فرقہ وارانہ تجویز کا عین ضد تھی۔ زبان، نسل، تاریخ، مذہب اور معاشی مفادات کی وحدت پنجگانہ کے اصول کو مختلف پیرایے میں علامہ نے اپنے خطبہ صدارت کے دو اور اہم مقامات پر بیان کیا ہے۔ ایک تو وہ موقع ہے جہاں سندھ کی علیحدگی پر انہوں نے دلیلیں، سندھ اور بمبئی کی تاریخ، تمدن، معاشرت، اور معیشت کے موازنے سے فراہم کی ہیں۔ دوسرا موقع وہ ہے جہاں انہوں نے طریقہ انتخاب کے متنازعہ فیہ مسئلے پر بحث کی ہے انھوں نے اپنا موقف یہ پیش کیا ہے کہ مسلمان اپنی معاشی پسماندگی بالخصوص پنجاب کے مسلمان کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہونے کی وجہ سے اپنے لئے جداگانہ انتخاب کا تحفظ مانگنے میں حق بجانب ہیں۔ آگے چل کر وہ یہ فرماتے ہیں کہ:

"اگر صوبوں کی تقسیم اس طرح کر دی جائے کہ لسانی، نسلی، ثقافتی اور مذہبی وحدت رکھنے والے نسبتاً ہم جنس گروہ قائم ہوجائیں تو ہندستان کے مسلمانوں کو خالصتہً علاقائی طریق انتخاب اختیار کر لینے میں کوئی عذر نہیں ہوسکتا۔"

علامہ کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

"The Muslims of India can have no objection to purely territorial electorates if provinces are demarcated so as to secure comparatively homogeneous communities, possessing Linguistic, racial, cultural and religious unity."

علامہ کے خطبۂ صدارت کے اس اقتباس کے دو الفاظ comparatively homogeneousنسبتاً ہم جنس میں ایک جہاں معنی پوشیدہ ہے۔ وحدت کی تلاش میں ہم اکثر بہت دور جانکلتے ہیں۔ ہم وحدت مطلقہ کے طلب گار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ وحدت مطلقہ absolute    unity تو صرف اللہ تعالے کی صفت ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ وحدہ لاشریک لہ۔ ہم مخلوقات کے لئے تو نصب العین ہے Unity in diversityیعنی صوفیائے کرام کے لفظوں میں "وحدت درکثرت"یا علامہ کے قول کے مطابق comparative homogeneityنسبتاً ہم جنسی۔ الغرض، بات یہاں آکر ٹھہری کہ علامہ نے برعظیم جنوبی ایشیاء کے دستوری عقدے کو حل کرنے کے لئے برعظیم میں وحدت پنجگانہ کے اصول پر مبنی ریاستوں کے قیام کی جمہوری تجویز پیش کی اور اس وحدت پنجگانہ کے لئے انہوں نے وحدت در کثرت یاcomparative homogeneityکو معیار قرار دیا۔میں نے شروع میں یہ عرض کیا تھاکہ علامہ کا خطبۂ صدارت نہ صرف ماضی کی تاریخ سازدستاویز ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ مستقبل کے لئے مشعل ہدایت بھی ہے میرا خیال ہے کہ وہ مشعل ہدایت ان معنوں میں ہیکہ ہم پاکستان مین بسنے والے گروہوں میں وحدت درکثرت کی بنیاد پر وحدت پنجگانہ کے رشتوں کو مضبوط سے مضبوط تربنائیں۔

لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اجازت دیجئے کہ میں عرض کروں کہ میری زندگی کے تجربات کی یہ تلخ ترین حقیقت ہے کہ پاکستان کی وحدت پنجگانہ کے بارے میں ہم شروع ہی سے بے یقینی کا شکار رہے۔مغلوب گمان رہے نتیجہ یہ ہوا کہ سرگباشی لالہ لا جپت رائے اور دیوتا سروپ بھائی پر مانند بازی لے گئے۔ ہندوستان تقسیم ہوا۔ فطرت نے تو اسے صدیوں بلکہ قرنوں پہلے ہی تقسیم کر رکھا تھا۔لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان جسے جغرافئے geology،تاریخ تمدّن نے ناقابل تقسیم بنارکھا تھا وہ بھی بٹ گیا۔پنجاب کٹ گیا۔ بے شمار افراد خانماں برباد ہوگئے۔ عصمتیں لٹ گئیں، لاکھوں بے دردی اور اذیت کے ساتھ مارے گئے۔ اس لئے کہ پنجاب کی غیر فطری تقسیم عمل میں لائی گئی۔ خیر، وہ تو ہوچکا۔ اس لئے کہ فطرت"کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف"اب ہمیں باقی ماندہ پاکستان یعنی علامہ اقبال کے Consolidated North- west Indin  Muslim State کے بقیہ حصے کی سلامتی کے لئے اپنی اپنی انفرادی بقا کے لئے علامہ کے وحدت پنجگانہ کے جمہوری اصولوں کی بنیاد پر پاکستانی قوم کے اتحاد کی عمارت کو استوار کرناہے۔ تو آیئے، تھوڑے سے وقت میں پاکستان کی اس قومی وحدت درکثرت کے کچھ جلوے دیکھیں۔

حضرت علامہ نے قومی خود اختیاری کی پانچ وحدتوں میں سے پہلے لسانی وحدت 'unity of langusge'کا ذکر کیا ہے یوں تو دنیا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بھی زبانوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔ برطانیہ عظمیٰ پاکستان کی نسبت چھوٹاملک ہے۔ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے معاملے میں ہمارا اس کوئی مقابلہ نہیں۔ پھر بھی اس چھوٹے سے ملک میں انگریزی، گیلک، ولش اور آئرش زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہ زبانیں مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان ہم سے یقینا بڑا ہے لیکن زبانوں کی کثرت کے لحاظ سے اس کے مسائل ہمارے مسائل سے بدرجہازیادہ بڑے ہیں۔ وہ تو اچھا خاصا مینارہ بابل ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

ومن آیاتہ اختلاف السنتکم(اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہاری زبانوں کا مختلف ہونا) اللہ کی یہ نشانی بحمداللہ ہمارے ملک میں وافرموجود ہے۔ ہمارے یہاں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔لیکن وہ  سب کی سب ایک خاندان کی شاخیں ہیں۔ اور وحدت درکثرت کا ایک عدیم المثال مظہر ہے یہ حقیقت کہ ہمارے ملک میں لسانی کثرت کے ساتھ ساتھ لسانی وحدت کے ایک نہ دو بلکہ تین رشتے موجود ہیں۔ ملک کے بالادست طبقوں کی مشترک زبان ہے انگریزی جو گلگت سے گوادر تک سارے پاکستان کے حکمران طبقے میں بولی، سمجھی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ شہروں اور قصبوں کے درمیان طبقوں میں کرگل سے لے کر کراچی تک اردو بولی، سمجھی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے اور ہزارہ سے حیدر آباد تک دیہاتوں میں بسنے والے عوام میں ہند کو، پوٹوہاری، جٹکی، ملتانی اور سندھی کی قدر مشترک رکھنے والی سرائیکی بولی او ر سمجھی جاتی ہے۔ یعنی لسانی وحدت کے لئے ہمارے پاس ایک نہیں بلکہ تین مشترک زبانیں موجود ہیں:

انگریزی ، اردو  اور سرائیکی

لسانی وحدت کے لئے ہمیں ایک اور عطیۂ خداوندی یہ حاصل ہے کہ ہمارے شہروں اور قصبوں کے ناخواندہ لوگ بھی ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہیں۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پشتو، پنجابی، ہندکو، اردو، فارسی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی سنی جاتی ہے تو کوئٹہ کے جناح روڈ پربلوچی، براہوئی، پشتو، اردو، فارسی، پنجابی اور انگریزی جاننے والے ایسے  ہفت زبان مل جائیںگے جن کو ماہر لسانیات ہونے کا قطعاً کوئی دعوٰے نہیں ہے۔ ہفت زبانی کی یہ روایت ہمارے یہاں خاصی پرانی ہے۔ پیرروشن بایزید انصاری کی خیر البیان اردو نثر کی قدیم ترین کتاب ہے۔ پیر روشن نے اس کتاب کو پشتو، فارسی، اردو اور عربی چار زبانوں میں تصنیف کیا تھا۔سندھی شاعری میں سچل سرمست کا مرتبہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ وہ صرف سندھی کے نہیں بلکہ اردو، فارسی اور سرائیکی کے بھی بلند پایہ شاعر تھے۔ بلوچستان کے محب وطن شاعر ملّامزاربینگل زئی نے "لاٹئِ بکیّ"یعنی لاٹ صاحب کی بگھی کے عنوان سے آتش نوانظم لکھی جس کے مختلف بند بلوچی، براہوئی، سندھی اور اردو میں ہیں۔ اور آج کل تو ہمارے کم ہی شاعر اور ادیب ایسے ہیں جو صرف ایک زبان میں اظہار خیال کے پابند ہوں۔

اس لسانی وحدت درکثرت کے ساتھ ساتھ ادبی ورثے میں بھی وحدت درکثرت کے مظاہر موجود ہیں۔ مثلاً حضرت خواجہ غلام فرید کی کافیاں اور سرائیکی زبان کے مرثیے ہزارہ سے لے کر حیدر آباد تک دیہات میں بسنے والے عوام کے دلوں کو گرماتے اور ان میں روحانی ترفع اور اخلاقی بالیدگی پیدا کرتے ہیں۔ ہیررانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، سخی سرور، راجہ رسالو، بھگت پرہلاد کے قصے سارے پاکستان کے عوام وخواص کا مشترک ادبی سرمایہ ہیں۔ اور زبان پہ بارخدایا یہ کس کا نام آیا۔تصوف کا سرمدی سرمایہ پاکستان کی تمام زبانوں کا مشترک ورثہ ہے۔ صدیوں سے وحدت الوجود کا الوہی نغمہ اس سرزمین میں گونج رہا ہے اور مختلف ملکوں سے آنے والی تہذیبوں کو وحدت درکثرت کے سرگم میں سموتا رہا ہے۔ یہ روحانی ورثہ نہ صرف لسانی اور ادبی وحدت بلکہ نظریاتی یک جہتی کی سب سے گراں مایہ ضمانت ہے۔ جس کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔

لسانی وحدت درکثرت بجائے خودنسلی وحدت در کثرت کا مظہر ہے جس کا حضرت علامہ نے وحدت پنجگانہ کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ذکر کیا ہے۔ یعنی Unity of race پاکستان کی تہذیبی تاریخ کی مثال دریائے سندھ کی سی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وجعلنا من المآء کل شیء حی۔( اور ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی) ابدآباد سے یعنی اس وقت سے جب سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہاں کی ثقافتی، معاشرت اور معیشت کی زندگی کا دارومدار دریائے سندھ اور اس کے معاونوں کے پانی پر رہا ہے۔ اس عظیم دریا میںبہتیرے معاون دریا اور ندیاں ملتی ہیں اور فوراً یکجان ہوجاتی ہیں۔ یہی حال انسانوں کے قافلوں کا رہا ہے مغرب میں پہاڑوں کے دروں سے اور مشرق کے میدانی علاقے کے راستے یہاں مختلف نسلوں کے لوگ آئے اور ایک دوسرے میں مل کر شیروشکر ہوگئے۔یہاں کے نہ تو فاطمی سید خالص سامی نسل کے رہے، نہ مغل،پٹھان اورشیخ علی الترتیب منگول، آرین اور سامی نسل کے، پٹھان ،پنجابیوں میں بھی موجود ہیں، سندھیوں میں بھی اور بلوچوںمیں بھی۔ کم وپیش یہی حال بلوچوں اور پنجابیوں کا ہے۔ پختون اور بلوچ حجروں میںآج تک دلچسپ اور مقبول عام موضوع بحث یہ ہے کہ پختون عبرانی نسل کے ہیں یا آرین نسل کے۔ بلوچ آرین ہیں یا حلب سے آئے ہوئے سامی النسل ۔ نسلی وحدت درکثرت کے ہوتے ہوئے ان دلچسپ بحثوں کا قطعی اور حتمی فیصلہ کرنا چنداں آسان بھی نہیں۔

تیسرے نمبر پر علّامہ نے Unity of historyکا ذکر کیا ہے۔ ہمیں اب تک اپنی تاریخ مرتب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ چھ ہزار سال کی مسلسل اور مربوط تہذیبی تاریخ لکھنا کارے دارد۔ دنیا میں کم ہی ایسے ملک ہوں گے جن کی اتنی طویل اور پرثروت تاریخ ہو۔ میں نے کچھ دیر پہلے پاکستان کی تہذیبی تاریخ کی مثال دریائے سندھ سے دی تھی۔ دریائے سندھ کی طرح ہماری تاریخ کے دھاروں میں طغیانیاں بھی آتی رہیں اور سکون بھی رہا۔ یہ اپنی رو میں بہت کچھ بہالے گیا اور اپنے ساتھ زرخیز مٹی بھی لایا۔ دریائے سندھ کی طرح ہمارے تاریخ کے دریانے اپنی گزرگاہ بارہا تبدیل کی اور اس تبدیلی کے راستے میں آنے والی بستیوں کو اجاڑ دیا۔ لیکن دریائے سندھ ہی کی طرح ہماری تاریخ کا تسلسل کبھی ٹوٹا نہیں۔ یہ دریا کبھی سوکھا نہیں۔ اس کی سمت کبھی نہیں بدلی۔ یہ دریا دریائے سندھ ہی رہا اور اس کی سرزمین انڈس لینڈ۔ اس کے باشندے تاریخی وحدت کے رشتے میںمنسلک رہے۔ اب یہ تاریخ کے عالموں کا کام ہے کہ وہ اس رشتے سے اپنے علمی سفینوں کی شیرازہ بندی کریں:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا ولو شاء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ ولکن لیبلوکم فی ماآتکم فاستبقوا الخیرات الی اللہ مرجعکم فینبئکم بماکنتم فیہ تختلفون۔(المائدہ48:)( یعنی ہم نے تم میں سے ہر ایک گروہ کے لئے الگ شریعت بنائی ہے اور راستہ ۔ اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنادیتا۔ لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں جو کچھ حکم دئیے گئے ہیں ان میں تمہیں آزمائے۔ پس نیکی کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کو بالاخر اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہی تمہیں بتائے گا کہ جن باتوں میں تمہارا آپس میں اختلاف تھا، ان کی حقیقت کیا تھی)۔

انسانی برادری کا مختلف مذہبوں کو ماننے والی مختلف امتوں میںبٹا ہوا ہونا عین خدا کی مشیت کا تقاضا ہے۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ مثلا سورۃ یونس کی آیت 19، سورہ ھود کی آیت118، سورۃ النحل کی آیت93وغیرہ وغیرہ۔ یہ حقیقت قرآن حکیم میں اتنی بار دہرائی گئی ہے کہ کثرت امم اور کثرت ادیان کو اگر قرآنی تعلیمات کے بنیادی اصول میں شمار کیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ سورہ المائدہ کی آیت 48 پر غور اور تدبّر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن حکیم فکر کی آزادی کو مسابقت الی الخیرات  یعنی نیکی کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ نکلنے کے جذبے کا ذریعہ بتاتے ہوئے عالمگیر اتحاد کی تعلیم دیتا ہے اور کثرت میں وحدت، اجزاء میں کل کاجلوہ دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ پاکستان میں بحمداللہ اس کے بخوبی مواقع میّسر ہیں۔ یہاں غیر مسلموں کی معتد بہ آبادی موجود ہے۔ اس کے علاوہ جہاں دوسرے مسلم ملکوں میں صرف ایک یا چند ملکوں میں دو فرقوں کے ماننے والے ہیں وہاں پاکستان میں اسلامی فرقوں کی تعداد عالم اسلام میں رائج فرقوں کی مجموعی تعداد سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس تعداد میں ہمارے آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

وحدت پنجگانہ میں اقبال نے پانچویں نمبر پر Identity of economec interests کا ذکر کیا ہے۔ یعنی اقتصادی مفادات کا ایک ہونا۔ دریائے سندھ کے نظام نے ہمیں ہمیشہ ہمیش سے ایک معاشی رشتے میں پرورکھا ہے۔ شروع زمانہ سے زراعت اور تجارت پر ہماری اقتصادیات کا انحصار رہا ہے۔ اوران دونوں ذرائع معیشت کے لئے ہم سب کے سب دریائے سندھ اور اس کے معاونوں کی سیرابی اور ان کے فراہم کردہ آبی راستوں کے محتاج رہے ہیں۔ اس لیے ہم ایک دوسرے کے ساتھ معاشی تعاون پر مجبور بھی رہے ہیں۔ بعد میںسڑکوں اور ریلوں نے ہمارے معاشی تعاون کی راہیں اور ہموار کیں۔ اور اب ہمارے پڑوسیوں کے مقابلے میںہماری معاشی اور صنعتی پس ماندگی ہمارے معاشی مفادات کے ایک ہونے کی مزید ضمانت دے رہی ہے۔

علامہ اقبال کے تاریخی خطبۂ صدارت کے مرکزی خیال یعنی وحدت پنجگانہ کی بنیادپر پاکستان کی آزادی کے استوار ہونے کی تھوڑی سی تفصیل میں نے آپ کی خدت میں پیش کی۔مضمون بہت طویل ہے اور وقت تھوڑا۔ پاکستانی قومیت کی وحدت پنجگانہ کی تلاش کے لئے اجتماعی کاوش درکار ہے۔ آخر میںمیں یہ عرض کروں گا کہ اس بارے میں بے یقینی کی سزا ہم بہت بھگت چکے۔اب تو ہم اقبال کی اس صدا پر کان دھریں کہ"یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے"۔ قائداعظم نے ہمیں اتحاد، یقین اور نظم کا نصب العین عطا کیا تھا۔ علامہ کے خطبہ صدارت کی روشنی میں اس کی تعبیر یہ کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی قومیت کی وحدت پنجگانہ پر یقین ۔ اس کے ذریعہ پیدا ہونے والے اتحاد اور اس پر مبنی تنظیم ہی میں پاکستانیوں کی سلامتی مضمر ہے۔