دو قومی نظریہ
قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے خیالات کی روشنی میں
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی جدوجہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں پورے خطے میں اسلامی اقتدار کی بحالی مطلوب تھی دوسرے دور میں جمہوریت کے زیر اثر آئینی تحفظات اور جداگانہ انتخاب کے ذریعے قومی تشخص کی حفاظت مقصود تھی اور تیسرے دور میں حق خود ارادیت کی بنا پر مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت کا قیام سیاسی نصب العین بن گیا۔ پہلے دور میں خاندان مغلیہ کے زوال پر دو قسم کی تحریکیں ایک دوسری کے متوازی چلتی رہیںایک تحریک میں حکمران طبقے پیش پیش تھے جو مسلمانوں کا محض سیاسی اقتدار واپس لانا چاہتے تھے۔ ان میں سراج الدولہ، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نمایاں تھے۔ دوسری تحریک میں علمائے کرام قیادت فرمارہے تھے۔ یہ ایک نظریاتی تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ پورے ہندوستان میں اسلام کا مثالی نظام قائم کیا جائے۔ اس تحریک میں شاہ ولی اللہؒ، ان کی اولاد اور سید احمد شہیدؒ اور ان کی جماعتِ مجاہدین نمایاں تھی۔ 1857ء کا انقلاب ان دونوں تحریکوں کے بچے کھچے افراد کی بدولت برپا ہوا۔ جس کی ناکامی سے پہلا دور ختم ہوگیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ جماعت مجاہدین نے جدوجہد جاری رکھی ۔دوسرا دور سرسید احمد سے شروع ہوا اور قائدا عظم محمد علی جناح ؒ کے چودہ نکات کا روپ لے کر آخر کار تحریک پاکستان میں تحلیل ہوگیا۔ اس دور میں مسلمانوں نے محسوس کیا کہ جمہوریت کے دور میں پورے ہندوستان میں اقتدار کی بحالی ناممکن ہے۔ ان کی تعداد اسی فیصد ہندوئوں کے مقابلے میں صرف بیس فیصد ہے اور بیس فیصد آبادی اسی فیصد آبادی پر غالب نہیں آسکتی ۔ اس لیے انہیں ایک مؤثر اقلیت کی حیثیت سے اپنے ملی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے آئینی تحفظات در کار ہیں۔ “جناح کے چودہ نکات” اسی احساس کی کوکھ سے ابھرے اور ان کا ماحصل یہ تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک وفاقی نظام حکومت قائم کیا جائے۔ جس کے اجزائے ترکیبی اندورنی طورپرزیادہ سے زیادہ خودمختارہوںمسلمانوں کے پانچ اکثریتی صوبوںاور ہندوئوں کے چھ اکثریتی صوبوں کے درمیان ایک توازن قائم ہو جائے۔ مرکز میں مسلمانوں کو ایک تہائی نیابت دی جائے۔ ہر صوبائی اور مرکزی وزارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کم از کم ایک تہائی ضرور ہو۔ جداگانہ طریق انتخاب تمام جمہوری اداروں میں نافذ کیا جائے اور مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم ، زبان ، دین ، شخصی قوانین اور تہذیبی ادوار کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ گویا مسلم اکثریتی اور ہندو اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک ایسا ملک وجود میں آجائے جس میں مسلمانوں کو سیای اقتدار میں برابر کا نہیں، ایک مؤثر شریک بنایا جائے۔
تیسرا دور تحریک پاکستان کا تھا۔ جس کا آغاز اقبالؒ کے خطبہ الہ آباد سے ہوا اور جو 14اگست 1947ء میں پاکستان بننے پر ختم ہوا اس دور کو بھی دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ایک اقبالؒ کادور، دوسرا قائداعظمؒ کادور۔اقبالؒ تصور پاکستان کے نقیب تھے۔ قائداعظمؒ نے اس تصور کو عملی جامہ پہنایا۔ نظریہ پاکستان یا دوقومی نظریئے کی تلاش کے لئے ہمیں ان دو مفکرین اور قائدین کی تحریروں اور تقریروں کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس تجزیئے کا آغاز کیا جائے دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ اول یہ کہ جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کو جن تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے انہیںتاریخوں کے اندر مقید کرنا ممکن نہیں ۔ کیونکہ ایک دور کے بطن سے دوسرے دور نے جنم لیا اور دوسرے دور کے بطن سے تیسرے دورنے۔ اور جس دور نے جنم لیا، اس نے پہلے دور کی موجودگی میں عہد ظفولیت بھی گزارا۔ گویا ادوار آپس میں خلط ملط ہوتے رہے۔ مثلاً اگر جنوبی ایشیاء میں علیحدہ مسلمان مملکت کی تجویزکولیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تجویز آئینی تحفظات کے دور کے آغاز میں ایک سے زیادہ مرتبہ مختلف افراد نے پیش کی تھی لیکن کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔ اور اگرچہ ہم تحریک پاکستان کے دور کو اقبالؒ کے خطبہ الہ آباد سے شروع کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی ایک عرصے تک آئینی تحفظات کے ذریعے قومی تشخص کے حصول کادور جاری رہا۔
دوسری بات دو قومی نظریئے سے براہِ راست طور پر تعلق رکھتی ہے۔ اسے دو قومی نظریہ کہہ لیجئے یا دو قومی معیشت۔ یہ کوئی جدید تصور نہیں تھا اب سے ایک ہزار سال پہلے البیرونی سال ہاسال تک ہندو معاشرے کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندو اور مسلمان ہر معاملے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کے عقائداور ہمارے عقائد میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ہندوئوں کا کٹرپن تمام غیر ملکیوں پر مرتکز ہے۔ ہندو انہیں ملیچھ یا ناپاک کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہر قسم کا رابطہ ممنوع قراردیتے ہیں نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کا رشتہ روا رکھتے ہیں نہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کے روادار ہیں۔ کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ ایسا کرنے سے ان کا دھرم بھر شٹ ہوجائیگا۔ تحریک آزادی ہند کے جدید مؤرخ آر۔ سی موجمدار تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ البیرونی کے الفاظ 1800ء تک قریب قریب بالکل درست تھے۔ گویا مغلوں کی رواداری اور اکبر کا دین الہٰی بھی ہندوئوں کے زاویہ نگاہ میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کر سکا۔ اور اگر ہم جنوبی ایشیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک دو قومی خطہ تھا ایک دور میں مسلمان قوم غالب تھی۔ پھر دونوں قوموں پر انگریزوں کا تسلط ہوا۔ ہماری قومی جدوجہد کے پہلے دورمسلمانوں نے ایک مرتبہ پھر غالب آنے کی کوشش کی دوسرے دور میں اسے “دوقومی ملک”بنانے کی سعی فرمائی۔ جداگانہ انتخاب کی تجویز اسی دور کی یادگار ہے۔ اور جب “دوقومی ملک” بنانا ناممکن نظر آیا تو یہ خطہ دو ملکوں میں بٹ گیا۔ ایک ہندوئوں کا ملک ایک مسلمانوں کا ملک۔
اس پس منظر کی روشنی میں خطبہ الہ آباد سے مندرجہ ذیل کلیدی اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
اول۔ “اسلام اخلاقی نصب العین اور ایک خاص قسم کے نظامِ سیاست کا امتزاج ہے۔ اس نے برعظیم کے مسلمانوں کی زندگی کو گہرے انداز میں متاثر کیا ہے۔ اور انہیں ایسے بنیادی احساسات اور وفاداریاں مہیا کی ہیں جن سے بکھرے ہوئے افراد اور گروہ ایک واضح اور معین قوم کی ہیت اختیار کر لیتے ہیں اور ایک منفرد اخلاقی شعور کے مالک بن جاتے ہیں”۔
دوم۔ “میں اس فرقہ وارنہ گروپ سے پیار کرتا ہوں جو میری زندگی اور طرز عمل کا ماخذ ہے اور جس نے مجھے اپنا دین، اپنا ادب ، اپنا فکر اور اپنی ثقافت دے کر مجھے وہ بنایا جو میں اس وقت ہوں اور اس نے میرے موجودہ شعور میں اپنے پورے ماضی کی تخلیق کو ایک جیتا جاگتا اور حرکت پذیر عنصر بنادیا”۔
سوم۔ “اسلام انسان کی وحدت کو روح اور مادے کی ناقابل مصالحت ثنویت یا دوئی میں منقسم نہیں کرتا۔ اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست باہم مربوط ہیں۔ اسلام کا دینی نصب العین بنیادی طور پر اسلام کے معاشرتی نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں سے ایک کو مسترد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا بھی مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس لیے اگر قومی بنیادوں پر ایک نظام سیاست کی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلامی اصول جمعیت کی جگہ لے لے تو یہ بات ایک مسلمان کے لئے ناقابل تصور ہے اور یہی وہ معاملہ ہے جو موجودہ وقت میں مسلمانان ہند سے براہ راست تعلق رکھتا ہے”۔
چہارم۔ “ہندوستان ایک چھوٹا سا ایشیا ہے اس کی آبادی کے ایک حصہ کی ثقافت مشرقی ایشیا کی قوموں سے ملتی جلتی ہے اور ایک حصے کی ثقافت وسطی اور مشرقی ایشیا کی قوموں سے مماثل ہے۔ اگر ہندوستان میں تعاون کا کوئی موثر اصول دریافت کر لیا جائے تو اس سے اس قدیم سرزمین میں امن اور باہمی خیر سگالی کا دور دورہ ہوگا۔ اور اس سے وسطی کا بھی پورا سیاسی مسئلہ حل ہوجائے گا”۔
پنجم۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے قومی مطالبات کی تائید کرتے ہوئے حضرت علامہ نے کہا۔ “ذاتی طور پر میں ان مطالبات پر مستزاد یہ کہوں گا کہ میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے سندھ اور بلوچستان کو مدغم کر کے ایک واحد ریاست کی صورت میں دیکھنا پسند کروں گا۔ خود اختیاری حکومت قلم رو برطانیہ کے اندر ہو یا قلم روبرطانیہ کے باہر۔ ایک مضبوط شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی آخری منزل نظر آتی ہے”۔
ششم۔ “اس سرزمین میں ایک ثقافتی قوت کی حیثیت سے اسلام کی بقاء کا دارومدار اسے ایک مخصوص علاقے میں مرتکز کرنے پر ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفادات کے پیش نظر ایک مربوط مسلم ریاست قائم کر دی جائے۔ اس سے ہندوستان میںطاقت کا اندرونی توازن امن وسلامتی کا پیامبر ہوگا اور اسلام کو موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے قانون، اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو حرکت میں لے آئے اور انہیں اپنی اصلی روح اور زمانہ حال کی روح کے قریب لے آئے”۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجوزہ مسلم مملکت میں کس قسم کا سیاسی نظام چاہتے تھے؟ اس کے لئے ہمیں خطبات مدارس کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ بالخصوص چھٹے خطبہ مدراس کا۔ اسلام میں حکومت، خلافت اور امامت مترادف اصلاحات ہیں۔علامہ فرماتے ہیں۔
“سنی قانون کے مطابق ایک امام یا خلیفہ کا تقرر مکمل طور پر ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ خلافت کسی ایک فرد میں مرتکز ہونی چاہیے؟ ترکیہ کا اجتہاد یہ ہے کہ اسلام کی روح کے مطابق خلافت افراد کی ایک جماعت یا ایک منتخب شدہ اسمبلی میں بھی مرتکز ہو سکتی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے مصر اور ہندوستان کے فقہاء نے اس نکتے پر اظہار خیال نہیں کیا۔ ذاتی طور پر میری رائے یہی ہے کہ ترکیہ کا نقطہ نظر مکمل اور مناسب ہے۔ بلکہ اس معاملے میں کسی استدلال کی چنداں ضرورت نہیں۔ جمہوری طرز حکومت نہ صرف اسلام کی روح کے مطابق ہے بلکہ دنیائے اسلام میں جونئی قوتیں ابھر رہی ہیں ان کے پیش نظر جمہوریت ایک ضروری چیزبن چکی ہے”۔
اقبالؒ نے جمہوری رجحانات کے پیش نظر ایک اور مسئلے کا بھی حل پیش کر دیا مسئلہ یہ تھا کہ اجتہاد کا اختیار کس کو ہے؟ مختلف زاویہ ہائے نگاہ کے نمائندہ علماء کو یا ایک مسلم قانون ساز اسمبلی کو۔ اقبال ؒ کی رائے یہ تھی کہ آج کے زمانے میں متصادم فرقوں میں اضافے کے پیش نظراجماع کی بہترین صورت مسلم قانون ساز اسمبلی ہی مہیا کر سکتی ہے۔ وہ قانون سازی میں مشورے کے لئے علماء کی کمیٹی کو ایک خطرناک چیز قرار دیتے تھے لیکن عاضی طور پر اس کے تقرر کو ناپسند نہیں کرتے تھے۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ قانون ساز اسمبلی میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل ہوں گے جو اسلامی قانون کی باریکیوں سے ناآشنا ہوں گے۔ اس لیے قانون کی تاویل میں غلطی کاامکان موجود ہوگا۔ اقبال کے نزدیک اس کا علاج یہ تھا کہ مسلمان ملکوںمیں قانون کی تعلیم کے موجودہ نظام میں اصلاح کی جائے۔ اس کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اسلامی قانون کے ساتھ ساتھ دوسرے جدید قانونی نظام بھی زیر مطالعہ آئیں۔
یہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ اقبالؒ نے مسلم مملکت کی تجویز کے سلسلے میں کہا کہ اسلام کو موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے قانون، اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو حرکت میں لائے۔ اور انہیں اپنی اصلی روح اور زمانہ حال کی روح کے قریب لے آئے۔ انہوں نے اجتہاد کا طریقہ کا ربھی تجویز کر دیا لیکن وہ چاہتے تھے کہ تفکر کے دروازے بند نہ ہوں۔ چنانچہ انہوں نے خطبات مدراس کے پیش لفظ میں اہل دانش سے اپیل کی ہے کہ وہ پھیلتے ہوئے علم کے ساتھ فکر کے نئے باب کھولیں کیونکہ کوئی فلسفیانہ سوچ خاتمیت کی مظہر نہیں ہوتی۔ چنانچہ جب پنڈت جواہر لعل نہرو نے سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تو اقبالؒ نے اس پر بھی تفکر کی طرح ڈالی اور قائداعظمؒ کے نام خطوط میں اس مسئلے پر اظہار خیال کیا۔ اور بتایا کہ وہ مسلم مملکت میں کیسا معاشی نظام چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں 28مئی 1937ء کے مکتوب سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
“روٹی کا مسئلہ روز بروز زیادہ پیچیدہ ہوتا جارہاہے۔ مسلمان محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ دو سو سال سے مسلسل نیچے ہی نیچے جارہے ہیں۔ جواہر لعل نہرو کا ملحدانہ سوشلزم شاید مسلمانوں کی زیادہ تائید حاصل نہ کر سکے۔ پس سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے افلاس کا مسئلہ حل کرنا کس طرح ممکن ہوگا؟لیگ کا پورا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس سلسلے میںکس حد تک سرگرم کار ہوتی ہے۔ اگر لیگ ایسے کوئی وعدے نہیں کرے گی تو مجھے یقین ہے کہ مسلمان عوام پہلے کی طرح اس سے لاتعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اس کا یہ حل موجود ہے کہ اسلامی قانون نافذ کیا جائے اور جدید تصورات کی روشنی میں اسے نشوونما دی جائے۔ اسلامی قانون کے ایک طویل اور محتاط مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر نظامِ قانون کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور نافذکیا جائے تو ہر شخص کے لئے کم ازکم قوت لایموت کا حق محفوظ ہو سکتا ہے۔ لیکن اسلامی قانون کا نفاذ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہاں ایک آزاد مسلم ریاست یا آزاد مسلم ریاستیں وجود میں نہیں آجاتیں۔ سال ہا سال سے میری دیانت دارانہ رائے یہی ہے اور میرے نزدیک اب بھی مسلمانوں کیلئے روٹی کا مسئلہ حل کرنے اور ایک پر امن ہندوستان کے حصول کا یہی واحد راستہ ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر ہندومذہب سوشل ڈیمو کریسی یا معاشرتی جمہوریت قبول کر لے تو اس کا اپنا وجود لازمی طور پر باقی نہیں رہے گا لیکن اگر اسلام اپنے قانونی اصول کے مطابق سوشل ڈیمو کریسی کو کسی طرح مناسب صورت میں قبول کر لے تو وہ ایک انقلاب نہیں ہو گا بلکہ اپنی اصل پاکیزگی کی طرف لوٹ آنے کے مترادف ہو گا”۔
علامہ ایک ایسا جمہوری نظام چاہتے تھے جس میں اسلامی قانون، اسلامی تعلیم اور اسلامی ثقافت کو جدید نظریات سے ہم آہنگ کر کے حرکت میں لایا جائے اور جہاں اسلامی قانون کی روشنی میں معاشرتی جمہوریت نافذ کی جائے تاکہ روٹی کا مسئلہ حل ہوجائے۔ یہی وہ نظریات تھے جن سے قائداعظمؒ متاثر ہوئے اور جنھوں نے انہی دلائل کو مزید تفاصیل کے ساتھ آگے بڑھایا۔ چونکہ اقبالؒ بنیادی طور پر فلسفی اور مفکر تھے اور قائداعظم ؒ بنیادی طور پر سیاسی رہنماتھے۔ اس لیے انداز گفتگو میں قدرتی طور پر فرق تھا۔ لیکن روح کے اعتبار سے دونوں کی رائے یکساں تھی۔
قائداعظمؒ نے ہندوئوں کو بتایا کہ ہندوستان میں ایک نہیں، دو قومیں آباد ہیں ایک ہندو قوم، دوسری مسلمان قوم۔ اور کوئی قوم ہو ا میں نہیں رہ سکتی ۔ قوم کے لئے وطن درکار ہوتا ہے۔ ہر قوم کو حق حاصل ہوتا ہے کہ جس خطے میں وہ آباد ہے اس میں اپنی تقدیر کی مالک خود بنے ۔ اسے سیاسی اصطلاح میں حق خود ارادیت کہتے ہیں۔ اگر جنوبی ایشیاء میں امن ….ایک پائیدار امن قائم کرنا ہے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ یہاں کی دو بڑی قوموں …..ہندوئوں اور مسلمانوں کو سیاسی حق خودارادیت دیا جائے۔ اور ہندوستان میں دو فیڈریشنیں قائم کی جائیں۔ ایک مسلمان صوبوں کی ایک ہندو صوبوں کی۔ انہوں نے 22مارچ 1939ء کو ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی میں ہندوئوں اور انگریزوں سے خطاب کرتے ہوئے گرج کر اعلان کیا۔ “تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوا کرے۔ تم ترقی یافتہ سہی، تمہاری معاشی حالت مضبوط سہی اور تم سمجھا کرو کہ سروں کی گنتی ہی آخری فیصلہ ہے لیکن میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ تم دونوں کوتم تنہا یا مل کر بھی ہماری روح کو فنا کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکو گے۔ تم اس تہذیب کو کبھی نہیں مٹا سکوگے۔ اس اسلامی تہذیب کو جوہمیں ورثے میں ملی ہے۔ ہمارا نور ایمان زندہے۔ ہمیشہ زندہ رہا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بے شک تم ہم پر ظلم وستم کرو ہمارے ساتھ بد ترین سلوک روا رکھو لیکن ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مریں گے”
6مارچ1940ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کر تے ہوئے قائداعظم ؒ نے فرمایا”انہوں نے سمجھا کہ مسلمان محض ایک اقلیت ہیں۔ جن پر ہندو اکثریت کو حکومت کرنی چاہیے لیکن مسلمان کسی اعتبار سے بھی یورپی ملکوں کی اقلیتوں کی طرح اقلیت نہیںہیں ایک چیز قطعی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم کسی طرح اقلیت نہیں ہیں۔ ہم ایک علیحدہ اور ممتاز قوم ہیں اور ہمارا ایک نصب العین ہے۔ ہم کوئی ایسانظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس کی رو سے ایک غیر مسلم اکثریت محض تعداد کی بنا پر ہم مسلمانوں پر حکومت کرے۔ اور ہمیں اپنا فرمانبردار سمجھے”
23مارچ1940کو آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہورکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ” ہندو قوم اور مسلمان قوم کے بنیادی اختلافات کو محض وہم وگمان بنانا ہندوستان کی تاریخ کو جھٹلانے کے برابر ہے۔ ایک ہزار سال تک ایک ہی خطے میں آباد رہنے کے باوجود ان کے اختلافات اسی پرانی شدت کے ساتھ موجود ہیں اس لیے یہ سمجھنا سراسرغلطی ہے کہ اگر اس ملک پر ایک آئین ٹھونس دیا گیا تو ہندو اور مسلمان ایک قوم بن جائیں گے۔ جو کام انگریزوں کی ڈیڑھ سو سالہ حکومت نہ کر سکی۔ وہ اب کیسے ہو گا؟ ہندوستان کا مسئلہ دو قوتوں کا مسئلہ نہیں جب تک اسے بین الاقوامی مسئلے کو طور پر حل نہیں کیا جائے گا یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
اور اب خطبہ لاہور سے ایک نمائندہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
ــ”اگر برطانوی حکومت اس بارے میں واقعی مخلص ہے کہ برعظیم کے عوام کو امن بھی حاصل ہوااورخوشی بھی توا س کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ ہندوستان کو دوخود مختار قومی مملکتوں میں تقسیم کر دے۔ اور اس طرح دو بڑی قوموں کو اپنے اپنے وطن بنانے دے”
“ہندواور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کے معاشرتی رواج الگ الگ ہیں ان کا ادب الگ الگ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے سچ پوچھو تو یہ دو مختلف تہذیبوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور تہذیبیں بھی ایسی کہ سوچ کا انداز ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ زندگی کے بارے میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے خیالات اور تصورات الگ الگ ہیں۔ پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ روشنی حاصل کرتے ہیں۔ تو تاریخ کے دو مختلف سر چشموں سے۔ ان کی رزمیہ داستانیں الگ ہیں۔ ہیرو الگ ہیں قابل فخر تاریخی کارنامے الگ ہیں۔ اکثر اوقات جسے ایک قوم ہیرو مانتی ہے اسے دوسری قوم دشمن جانتی ہے۔ جسے ایک قوم جیت مانتی ہے اسے دوسری قوم اپنی ہار سمجھتی ہے۔ پس ان کی تاریخیں الگ ہیں اگر ایسی دو قوموں کو جبراً ایک مملکت میں رکھا گیا جہاں ایک قوم مستقل اقلیت ہو اور دوسری قوم مستقل اکثریت ہو تو اس سے اضطراب بڑھے گا،بے چینی بڑھے گی اور آخر کا روہ نظام حکومت پاش پاش ہو جائیگا۔ جو ان دونوں کو یک جارکھنا چاہے گا۔ قوم کی کوئی بھی تعریف کیجئے اس کے مطابق مسلمان ایک الگ قوم ہیں اس لیے انہیں حق حاصل ہے کہ اپنا الگ وطن بنائیں اپنے علاقے الگ کر لیں اپنی الگ مملکت بنائیں”۔
اب سوال یہ ہے کہ قائداعظم ؒ دو قوی نظریہ کے تحت مسلمانوں کے لئے جو آزاد ملکت چاہتے تھے اس بارے میں ان کا تصور کیا تھا۔ 1941ء میں قائداعظم ؒ نے فرمایا۔ “اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز ہمیشہ ہمارے سامنے رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اوروفا کیشی کا سرچشمہ صرف خدا کی ذات ہے۔ اس کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمنٹ کی۔ اور نہ کسی اور شخص یا ادارے کی۔ قرآن مجید کے احکام ہی سیاست اور معاشرت میں ہماری آزادی اور پاپندی کی حدیں قائم کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت اور دوسرے لفظوں میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی کے لئے آپ کو علاقے اور مملکت کی ضرورت ہے”
مندرجہ ذیل تین اقتباسات سے قائداعظم ؒ کے جچے تلے نظریئے کا زیادہ بہتر طریقے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
“وہ کون سا رشتہ ہے جس میں بندھ جانے سے تمام مسلمان ایک واحد جسم کی طرح ہیں۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت قائم ہے۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے۔ وہ بندھن، وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی وہ عظیم کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیںگے ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی چلی جائیگی۔ ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، ایک امت”۔(1943)
اس حقیقت سے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ضابطہ اخلاق ہے۔ جو مذہب، معاشرت، تجارت، عدالت، فوج سول اور فوجداری کے تمام قوانین کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ مذہبی رسوم ہوں یا روز مرہ زندگی کے معاملات، روح کی نجات کا سوال ہو یا بدن کی صفائی، اجتماعی واجبات کامسئلہ یاانفرادی حقوق کا۔ان تمام معاملات کے لئے اس ضابطے میں قوانین موجود ہیں”۔
“پاکستان کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غیر ملکی حکومت سے آزاد ی چاہتے ہیں۔ اس سے اصل میں مسلم آئیڈلوجی مراد ہے جس کا تحفظ نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اپنی آزادی ہی مطلوب نہیں ہمیں اس قابل بھی بننا ہے کہ اس کی حفاظت کر سکیں اور اسلامی تصورات اور اصول کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔”
پاکستان بننے کے بعدقائداعظم ؒ نے اپنے تصور پاکستان کو زیادہ واضح انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے وفات سے چند ہفتے پہلے کہا کہ “ہمارے سامنے یہ مقصد ہے کہ یہاں کے عوام خوشحالی اور اطمینان کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مقصد اس طرح حاصل نہیں ہو سکتا کہ ہم مغرب کے معاشی نظا م کو اپنا لیں ۔ ہمیں اپنا راستہ خودطے کرنا ہے ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسانظام پیش کرنا چاہیے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے تصورات کے مطابق ہو۔ صرف یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم وہ فرض اد ا کرسکیں گے جو ہم پر مسلمان ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتا ہے اور ہم دنیا کو وہ پیغام دے سکیںگے جو اسے تباہی سے بچا لے گا۔ اور بنی نوع انسان کو مسرت اور خوشحالی کا پیغام دے گا۔ یہ کام کسی اور نظام سے نہیں ہو سکتا۔(جولائی1948)
قائداعظمؒ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے جس میں جمہوری نظام قائم ہو۔ چنانچہ انہوںنے پاکستان بننے کے بعد کہا۔ “آخر حکومت کے سامنے مقصد کیا ہے؟حکومت کے سامنے ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے۔ عوام کی بے لوث خدمت اور ان کی فلاح وبہبود کے لئے مناسب تدبیر یں اختیار کرنا۔ اس کے سوابرسراقتدار حکومت کا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے؟ اگر اس کے سوا کوئی اور مقصد سامنے ہے تو ایسی حکومت کو اقتدار سے ہٹا دو۔ لیکن ہلڑبازی سے نہیں اقتدار آپ کے پاس ہے آپ کی چیز ہے آپ کو اسے استعمال کرنے کا فن بھی آنا چاہیے۔ آئینی طور پر یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ اگر کسی حکومت سے آپ مطمئن نہ ہوں تو اسے برطرف کر دیں۔ اور اپنی مرضی سے حکومت قائم کریں”
جو نصب العین قائداعظم ؒ کے سامنے تھا ا س کاسب سے بڑا تقاضایہ تھا کہ قوم متحد ہو۔ ہر شخص دوسرے تمام امتیازات سے بالارہ کر ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنی راہیںمعین کرے اور اس پیمانے پر اپنے کر دار کامحاسبہ کرے۔ چنانچہ صوبائی اور علاقائی تعصبات کے خلاف ان کی تقریروں سے دو اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔
“آپ کو اپنے صوبے کی محبت اور اپنی مملکت کی محبت کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے مملکت کی محبت ہمیں ایک ایسی سطح پر لے جاتی ہے جو صوبائی محبت سے بالاترہے۔ اس کے لئے بلند ترحبِّ وطن کی ضرورت ہے۔مملکت سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ذاتی یا مقامی یا صوبائی مفادات کو سارے ملک کے مفاد کے تابع کرنے کے لئے بروقت تیاررہیں۔ مملکت کا فرض پہلے ہے اور اپنے صوبے اپنے ضلع اپنے قصبہ اور اپنے گائوں کا فرض بعد میں آتا ہے(12اپریل1948)
“اب ہم سب پاکستانی ہیں۔نہ بلوچی، نہ پٹھان، نہ سندھی، نہ بنگالی، نہ پنجابی۔ ہمیں پاکستانی اور صرف پاکستانی کہلوانے پر فخر ہونا چاہیے ۔ ہم جو کچھ محسوس کریں جو کچھ عمل کریں، جو قدم بھی اٹھا سکیں پاکستانی اور فقط پاکستانی کی حیثیت سے ۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ جب کوئی نیا قدم اٹھانے لگیں تو پہلے رک کر ذرا سوچ لیں۔ کہ یہ آپ کی ذاتی یا مقامی پسند یا ناپسند کے زیر اثر ہے۔ یا پورے پاکستان کے فائدے کا خیال دوسری سب باتوں پر غالب ہے۔ اگر ہر شخص یوں اپنا محاسبہ کرے گا اورخود کو مجبور کر کے اپنے آپ پر دوسروں پر بھی ایمانداری کا اصول لاگو کرنے کا عادی ہوجائے گا تو پاکستان کا مستقبل نہایت روشن اور شاندار ہوجائیگا”۔
حضرت قائداعظمؒ دوقومی نظریئے کے حامی تھے تاکہ مسلمان قوم کے لئے ایک الگ وطن حاصل کیا جائے۔ اور اس وطن میں اسلام کا عادلانہ اور منصفانہ معاشی معاشرتی نظام قائم کیا جائے۔ گویا ایک فلاحی مملکت بن جائے۔ قائداعظمؒ پاکستان میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کے افراد کو بھی اس مملکت کا برابرکا شہری قرار دیتے تھے۔ اور ان کی حفاظت کی ضمانت دیتے تھے۔ چنانچہ جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس کے متن میں یہ چیز شامل کر دی گئی کہ ہندوستان اور پاکستان میںجو اقلیتیں آباد ہیں انہیں ایک جیسے معاشرتی، معاشی ، سیاسی ، اور شہری حقوق دیئے جائیں۔ا ور پاکستان بننے سے ایک مہینہ پہلے قائداعظمؒنے دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا”پاکستان میں اقلیتوں کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی خواہ وہ کسی فرقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں۔ ان کامذہب عقیدہ اور ایمان پاکستان میں بالکل سلامت اور محفوظ رہے گا۔ ان کی عبادت کی آزادی مین کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ان کے مذہب، عقیدے ، جان ومال اور ان کی ثقافت کی مناسب حفاظت ہوگی وہ بلالحاظ رنگ ونسل ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہوں گے”۔
اور جب پاکستان بن گیاتو آئین ساز اسمبلی میں افتتاحی تقریر فرماتے ہوئے قائداعظمؒ نے اقلیتوں کے لئے مذہبی آزادی کا ایک بار پھر اعلان کیا اور وہ بھی بھر پور انداز میں کہا”ہم اس بنیادی اصول سے کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں اور برابر کے شہری ہیں”۔