مزار اقبال

زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاک راہ کو میں نے لکھا ہے راز الوندی

دنیا میں روزانہ لاکھوں انسان پیدا ہوتے ہیں اور لاکھوں پیغام اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ بیشتر ایسے ہوتے ہیں جو موت آنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کا نام، جن کا کام اور جن کا پیغام اُن کی موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ علامہ اقبال بھی انھی کچھ لوگوں میں سے ہیں۔ علامہ اقبال نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو صبح اذانوں کے وقت انتقال فرمایا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر عیسوی تقویم کے لحاظ سے ۶۰ سال ۱۲۰۰۵ دن تھی۔ اُن کی رحلت کے فورا بعد جو مسئلہ در پیش ہوا، وہ یہ تھا کہ قوم کے عظیم من کو کہاں سپرد خاک کیا جائے۔ علامہ صاحب کے جگری دوست ، چوہدری محمد حسین صاحب تہجیز و تدفین دوسرے لوگوں کے سپرد کر کے مرحوم کی ابدی خواب گاہ کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔ سب کا خیال تھا کہ ان کے مزار کے لیے ایسی جگہ منتخب کی جائے جو ان کے شایانِ شان ہو۔ چنانچہ چوہدری محمد حسین، را جہ حسن اختر اور دیگر متعلقین نے یہ فیصلہ کیا کہ شاہی مسجد کی سیڑھیوں کے قریب حکیم الامت کی ابدی آرام گاہ بنے اور ظاہر ہے کہ اقبال کی مرقد کے لیے اس سے موزوں ترین مقام اور کیا ہو سکتا تھا۔
ان دنوں صوبائی حکومت یعنی متحدہ ہندوستان کے سر براہ سر سکندر حیات خان مرحوم تھے۔ اُس وقت وہ پنجاب سے با ہر دورہ پر تھے۔ کہ میاں امیرالدین نے اُن سے تار کے ذریعہ مذکورہ مقام پر تدفین کی اجازت طلب کی لیکن اُنہوں نے نفی میں جواب دیا اور یہ متبادل تجویز پیش کی کہ اسلامیہ کالج کے میدان میں اس مقصد کے لیے کسی مقام کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانان لاہور کی آرزوؤں کا احترام کرتے ہوئے علامہ کے عقیدت کیش اپنے فیصلے پر جمے رہے۔ اسی اثنا میں حیرت انگیز صورت حال یه پیش آئی کہ خود گورنر صوبه سر ہنری کریک نے بروقت ہمدردانہ تعاون کیا۔ اُس شریف النفس انگریز کی مدد سے ان تمام مشکلات پر قابو پالیا گیا جو محکمہ آثار قدیمہ سے گفت و شنید کے سلسلے میں پیش آئیں کیونکہ یہ مقام اسی محکمے کے زیر نگرانی تھا۔ مختصر یہ کہ حکیم الامت کی تدفین کے لیے مطلوبہ مقام کی اجازت مل گئی۔ اس آرام گاہ کے انتخاب سے حکیم الامت کی وہ آرزو بھی پوری ہو گئی جس کا اظہار انہوں نے اپنی بصورت کی بنا پر ان اشعار میں کیا تھا ۔
کو کبم را دیده بیدار بخش
مرقد در سایہ دیوار بخش
تابیا ساید دل بیتاب من !
بستگی پیدا کند سیماب من
بانک گویم کہ آرام نگہ
دیده آغازم انجام نگہ

سکھ ہندو رہنما اس مقام تدفین کے انتخاب پر بہت جز بز ہوئے۔ مزار کی تعمیر تعمیری سامان کی فراہمی اور دیگر معاملات کے سلسلے میں مزار کمیٹی نے جو تدابیر اختیار کی تھیں، ان میں کافی رکاوٹیں ڈالی گئیں۔
لوکل سلیف گورمنٹ کے سکھ وزیر سردار سندر سنگھ مجیٹھا نے جو تعمیرات کے سلسلے میں اجازت دینے یانہ دینے کے کل اختیارات رکھتے تھے سختی کے ساتھ مزاحمت کی۔
جب میاں امین الدین جو قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے گور نر بنے، میڈیکل اینڈ سیلف گورنمنٹ کے محکموں کے سیکرٹری مقرر ہوتے تو راستہ کی تمام مشکلات دور ہو گئیں۔
موصوف کی کوششوں سے تعمیر مزار کے سلسلے میں اجازت یابی کے تمام مراحل طے ہو گئے مگر اس شرط پر کہ
(الف) مزار کسی صورت میں بھی صحن مسجد کی فصیل سے اونچا نہ ہو۔
(ب) عمارت مزار اپنے گردو پیش کی تعمیرات کے عین مطابق ہو۔
1938 میں جاوید منزل میں ایک اجتماع ہوا جس میں علامہ مرحوم کے مزار کی تعمیر کے لیے ایک کمیٹی تشکیل ہوئی۔
چوہدری محمد حسین اس کمیٹی کے صدر اور حکیم قرشی، میاں امیر الدین ، راجہ حسن اختر، حمید نظامی اور شیخ محبوب الہی وغیرہ ارکان منتخب ہوئے۔
خواجہ عبد الرحیم کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کیے گئے بعد میں راجہ حسن اختر مزار کمیٹی کے صدر چنے گئے۔
اور کچھ نئے ممبر بھی شامل کیے گئے۔ مزار کی تعمیر کا کام کئ سال تک معرض التوا میں رہا۔

آٹھ سال کے بعد 1946 میں اس کام کا آغاز ہوا اور سات آٹھ سال میں اختتام کو پہنچا۔
مزار کی تعمیر میں ایک لاکھ روپیہ کے قریب صرف ہوئے۔
کمیٹی نے حیدر آباد دکن کے ممتاز ماہر فن تعمیر نواب یار جنگ سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے حیدر آباد سے مراد کا نقشہ بنا کر بھیجا جسے کمیٹی نے پسند نہیں کیا۔ پھر انہیں لاہور آنے کی دعوت دی گئ۔ جب وہ لاہور آئے تو مزار کمیٹی کے چئیرمین
چوہدری محمد حسین اور دوسرے ارکان انہیں علامہ مرحوم کی آخری آرام گاہ پر لے گئے تا کہ وہ اپنی آنکھوں سے مزار کے محل وقوع اور اسکے گرد و پیش کے مناظر اور عمارتوں کو دیکھ لیں۔

چوہدری محمد حسین نے نواب زین یار جنگ سے کہا۔ حکیم الامت کے مزار کے ایک جانب شاہی مسجد ہے جو مسلمانوں کی روحانی عظمت کو نمایاں کر رہی ہے۔

اس کے مقابل شاہی قلعہ ہے جو مسلمانوں کی دنیاوی سطوت و طاقت کا نشان ہے۔ تیسری سمت رنجیت سنگھ کی مڑھی ہے جو اسلام سے بغاوت کی یاد گار ہے۔ چو تھی جانب علامہ اقبال کا مزار ہے جن کو مجدد ملت کہا جا سکتا ہے۔ مزار اقبال کا نقشہ کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ سنگ و خشت کی خاموش زبانیں حقیقت کی ترجمانی کریں۔ اور ان کی ترتیب و تعمیر سے اس حقیقت کا انکشاف ہو کہ اقبال کا کلام اور اس کا پیام فقر و سلطنت اور درویشی و شاہی کا ایک حسین امتزاج تھا۔
ان تو جہیات سے نواب زین یار جنگ بہادر کے دماغ میں تخلیق و ایجاد کی برقی رو دوڑ گئی اور پہلے سے اُن کے ذہنی تصورات میں جو نقشہ بسا ہوا تھا، اس کی بساط ہی الٹ گئی۔ نواب صاحب نے از سرنو کام کا آغاز کیا۔ صلاح مشورے کے بعد موصوف نے وہ تعمیری خاکہ تیار کیا ہے انجام کار قبول خاص و عام کی سند ملی۔
علامہ مرحوم کا مزار اسی نقشے کے مطابق تعمیر ہوا۔ مزار کمیٹی نے شروع دن سے ہی یہ تہیہ کر لیا تھا کہ وہ مزار کی تعمیر کے سلسلے میں عوام سے چندے کی اپیل نہیں کرے گی کمیٹی نے ایک بہت بڑے تاجر کی اس پیش کش کو بھی رد کر دیا کہ میں اس شرط پر مزار کے تمام مصارف برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں کہ مزار بننے کے بعد وہاں میرے نام کی تختی نصب کی جائے ۔
قیام پاکستان کے بعد مسٹر غلام محمد مرحوم نے جبکہ وہ وزیر مالیات تھے، حکومت کی طرف سے تعمیر مزار کے لیے کچھ رقم دینا چاہی لیکن مزار کمیٹی نے اپنی سابقہ روایات کے پیش نظر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ غرضیکہ مزار کی تمام تعمیرات کا خرچ حکیم الامت کے خیر خواہوں ، مداحوں اور عقیدت مندوں کی نجی کوششوں سے ہوا۔

مزار اندر سے سنگ مرمر اور باہر سے سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے ۔ یہ دونوں قسم کے پتھر راجپوتانہ سے درآمد کیے گئے تھے۔ ہر دو قسم کے در آمدی مال کی آخری قسط ابھی راستہ ہی میں تھی کہ تقسیم ملک کا سلسلہ پیش آگیا۔ اس لیے یہ سامان کھوکھراپار سے منگوانا پڑا۔
مزار کی تعمیر کا کام فروری 1950 میں اختتام پذیر ہوا۔
مسٹر بشیر احمد انجنیئر انچار ج نے تمام خدمات رضاکارانہ طور پر انجام دیں۔
مزار کے دو داخلی دروازے ہیں۔ ایک مشرقی جانب اور ایک جنوبی سمت والا دروازه تو روزانہ عام لوگوں کے لیے کھلا رہتا ہے۔
مشرقی دروازه صرف 21 اپریل اور 9 نومبر یا جب کوئی خاص زائر آتا ہے تو اس وقت کھلتا ہے۔
دونوں داخلی دروازے سنگ مرمر کی حسین جالیوں سے بنائے گئے ہیں ۔ مغربی جانب ایک کھڑکی ہے جو سنگ مرمر کی جالی سے بند کی ہوئی ہے، اس کھڑکی کی جالی کے اوپر مزار کی بیرونی جانب خط نسخ میں یہ اشعار کندہ ہیں۔
بیانا کار این امت بسازیم
قمار زندگی مردانه بازیم
چنان نالیم اندر مسجد شہر
کہ دل در سینه ملا گدازیم!

سنگ شرح کی چار سیڑھیاں چڑھ کر عمارت کے اندر داخل ہوتے ہیں۔
مزار کی چھت تمثیلی اشاریت کی حامل ہے۔ وسط میں اسم محمد کنده اور چاروں گوشوں میں اقبال کا نام ہے۔ اس انداز میں کہ ہر نام کی برقی لہر مرکز کی طرف مائل ہے۔ اس تمثیلی اشاریت ہے یہ اظہار مقصود ہے کہ اقبال نے جس مرکز انوار سے اکتساب نور کیا ہے ، وہ ذات ہے. محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور انہی کی الہامی تعلیمات کا پر تو ان کے کلام اور ان کے پیغام پر پڑا ہے۔
جنوبی دروازے کے اوپر اندرونی جانب کی دیوار پر قرآن مجید کی آیت مبارکہ رقم ہے۔

ینبت الله الذين امنو في الحيوة الدنيا و الآخرة

مشرقی دروازے کے اوپر اندرونی جانب کی دیوار پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے۔
” ولقد كتنا في الذبور و من بعد الذكر عن الأرض من شها من عبادي الصالحون “
اور سرہانے کی جانب مغربی دیوار کی کھڑکی کے اوپر اندرونی جانب یہ آیت کندہ ہے جو علامہ اقبال کو بے حد مرغوب تھی یعنی
” كلمة طيبة كشجرة طيبة اصلها ثابت وفرعها فی السماء “
یہ تینوں آیات مبارکہ خط کوفی میں نہایت دلآویز خط میں سنگ موسیٰ سے کندہ کی ہوئی ہیں۔
مندرجہ ذیل اشعار جو چو دھری محمد حسین مرحوم کے مطابق علامہ کے نصب العین اور اُن کے پیغام کا خلاصہ ہیں۔
مزار کا تعویذ حکومت افغانستان کا عطیہ ہے۔ اس عطیہ کے اخذ و اصول کا شرف سردار صلاح الدین سلجوقی کو جو تقسیم ہند سے پہلے کئی سال تک دہلی میں افغانستان کے قونصل جنرل تھے، حاصل ہے۔ افغانستان میں یہ تعویذ اور کتبہ دنیا کے سب سے زیادہ قیمتی پتھر LAPIS LAZULI سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ پتھر افغانستان اور وسط ایشیا کے علاوہ دنیا میں اور کہیں دستیاب نہیں ہے ۔
یہ اس قدر شفاف ہے کہ ایک طرف کی روشنی، دوسری صاف نظر آسکتی ہے۔ اُس زمانے میں اس پتھر کی قیمت ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
۱۹۵۰ء میں جب شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے علامہ کے مزار کی زیارت کی تو وہ مزار کی عمارت اور خصوصا وہاں پر کندہ کئے ہوئے اشعار سے بہت متاثر ہوئے۔ اور ان اشعار کو دیکھ کر بیساختہ ان کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا۔
خوش خطی خوب است.
یہ خطاطی مشہور ماہر فن عبد المجید پروین رقم کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔
حضوری باغ کے قریب، شاہی مسجد کے جنوب مشرقی مینار کے زیر سایہ اقبال کی آخری آرام گاہ آج بھی مرکز خاص و عام ہے ۔ عام لوگوں کے علاوہ جو بھی بیرونی سیاح اور زائر لاہور آتا ہے، وہ ضرور مفکر اعظم کی جائے مرقد کو دیکھتا ہے، اور مزار پر عقیدت کے پھول چڑھاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ تا قیامت یونہی جاری رہے گا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
شبنم نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

عقیل عباس جعفری
نظریہ پاکستان کونسل محترم عقیل عباس جعفری کی ممنون ہے کہ یوم اقبال پر خصوصی مضمون عنایت کیا

اپنا تبصرہ بھیجیں