مصنفہ کا تعارف

کراچی، پاکستان سے تعلق رکھنے والی، مطربہ شیخ بنیادی طور پر ایک تخلیق کار ہیں۔ ادبی تجزیوں پر مشتمل ویڈیو لاگز ہوں یا سماجی مسائل پر لکھے گئے کالم ہوں، علمی اور ادبی رنگ نمایاں ہے۔
کراچی شہر کے تنوع نے مطربہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کیا۔ مطربہ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی کا تجربہ کیا۔ ان کے کام کو سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی، جلد ہی ان کے قلم نے قارئین اور ناقدین کی توجہ حاصل کر لی۔ مطربہ میں مشاہدے کی گہرائی اور فکری استحکام کا امکان ہے۔ مطربہ کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’مناط‘‘ کے عنوان سے پاکستان اور انڈیا میں شائع ہوا ہے۔ دوسرے مجموعے کی اشاعت بھی جلد متوقع ہے۔
مطربہ نے دو ہزار چوبیس میں ہونے والے عام انتخابات میں کراچی کے حلقہ این اے 236 سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب میں حصہ لیا۔ انہوں نے بغیر کسی بڑی مہم کے ایک ہزار باسٹھ ووٹ حاصل کیے۔ مطربہ مستقبل میں بھی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ ان کے پاس ایک مضبوط منشور ہے۔ “علم و ادب آگاہی اور شعور۔

قائد اعظم بطور سیاسی ریفارمر

قائد اعظم کے دور سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو صورتحال گھمبیر اور پیچیدہ نظر آتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند طویل عرصے تک حملہ آوروں اور غاصبوں کے نرغے میں رہا۔
سن انیس سو بیس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے، پورے ہندوستان میں فسادات پھوٹ پڑے۔ فسادات میں دونوں اطراف کے ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک و زخمی ہوئے،املاک کو نقصان پہنچا۔۔ مسلمانوں کا زیادہ نقصان ہوا۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے
انگریز سرکار نے مختلف قانونی، آئینی و سماجی حربے استعمال کئے، لیکن کانگریس کے جانبدارانہ رویئے اور انگریز سرکار کی مسلمان دشمنی نے تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے دونوں اقوام کو مزید ایک دوسرے سے کبیدہ خاطر کر دیا۔
سن انیس سو ستائیس میں سائمن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
سائمن کمیشن برطانوی پارلیمنٹ کے سات عدد ارکان پر مشتمل تھا۔ جس کے صدر ” سر جان سائمن” تھے، جو برطانیہ کی لبرل پارٹی سے تعلق رکھتے تھے، اسکے علاوہ دوسرے ارکان لیبر اور کنزرویٹو پارٹیز سے تھے۔
اس سات رکنی بنچ نے ہندوستان کے لئے ایک دو سالہ رپورٹ مرتب کی جس کو سائمن کمیشن کا نام دیا گیا۔ سائمن کمیشن نے اپنی دو جلدوں پر مشتمل رپورٹ شائع کی۔
کمیشن کے مطابق صوبوں میں نمائندہ حکومت قائم کرکے صوبوں کی خودمختاری میں توسیع کر دی۔
اس نے صوبوں کے برطانوی گورنروں کو اپنے زیادہ تر ہنگامی اختیارات برقرار رکھنے کی اجازت دی، اس لیے عملی طور پر صوبوں کو بہت کم خود مختاری دی جانی تھی۔ خاص طور پر کمیشن کی رپورٹ میں تسلط کی حیثیت کا بالکل ذکر نہیں تھا۔ کمیشن نے یہ بھی سفارش کی کہ جب تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی برقرار رہے گی الگ انتخابی حلقے برقرار رکھے جائیں گے۔
کمیشن کی مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس، اور ممتاز ہندوستانی رہنماؤں بشمول نہرو، گاندھی اور جناح نے سختی سے مخالفت کی، کیونکہ اس میں صرف برطانوی ارکان تھے اور کوئی ہندوستانی نہیں تھا۔
ممتاز بھارتی قوم پرست لالہ لجپت رائے نے لاہور میں کمیشن کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی۔ احتجاج کے دوران انہیں پولیس کی وحشیانہ پٹائی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اٹھارہ دن بعد 17 نومبر 1928 کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

سائمن کمیشن جنوری 1928 میں انگلینڈ سے روانہ ہوا۔ اور 3 فروری 1928 کو ممبئی پہنچنے کے فوراً بعد، اس کے ارکان کو مظاہرین کے ہجوم کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگ سیاہ جھنڈوں کے ساتھ کمیشن کا استقبال کرنے نکلے جن پر لکھا تھا ‘سائمن گو بیک’۔ پٹنہ میں سائمن کمیشن کے خلاف مظاہروں کی قیادت مغفور احمد اعجازی نے کی۔ اسی طرح کے مظاہرے ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں ہوئے جہاں جہاں کمیشن کے سات برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے دورہ کیا۔
گو ہندوستان کے چند حلقے کمیشن کی حمایت میں شریک تھے لیکن قوم پرست رہنما اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کسی طور بھی کمیشن کے حق میں نہ ہوئے۔

ستمبر 1928 میں موتی لال نہرو نے کمیشن کے مقابل اپنی نہرو رپورٹ پیش کی کہ ہندوستانی آپس میں آئینی اتفاق رائے حاصل نہیں کر سکے۔ اس رپورٹ میں اس نقطے پر زور دیا گیا کہ ہندوستان کو مکمل داخلی خود مختاری کے ساتھ تسلط کا درجہ دیا جائے۔

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے برعکس اس میں حقوق کا بل شامل تھا۔ نہرو رپورٹ کے مطابق کوئی ریاستی مذہب نہیں ہوگا۔ مردوں اور عورتوں کو بطور شہری مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔
حکومت کی وفاقی شکل ہونی چاہیے جس میں بقایا اختیارات مرکز میں ہوں۔

رپورٹ میں سپریم کورٹ کے قیام کی تجویز اور صوبوں کا لسانی طور پر تعین کرنے کی تجویز بھی شامل تھی۔
لیکن کسی بھی برادری کے لیے علیحدہ انتخابی حلقے یا اقلیتوں کے حقوق کی بابت کوئی نقطہ واضح نہیں تھا۔
رپورٹ کے مطابق یونین کی زبان ہندوستانی ہوگی، جو دیوناگری یا اردو حروف میں لکھی جا سکتی ہے۔ انگریزی زبان کے استعمال کی اجازت ہوگی۔
جناح نے رپورٹ کو “ہندو دستاویز” قرار دیا اور نہرو رپورٹ کے جواب میں جناح نے چودہ نکات پیش کیے۔ چودہ نکات برطانوی راج سے مسلمانوں کے آئینی و قانونی مطالبات پر مشتمل تھے۔
چودہ نکات کا خلاصہ یہ ہے۔
سرحدی صوبہ وفاق سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
انتظامی اور علاقائی ری ایڈجسٹمنٹ ہونی چاہیے، مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی واضح نمائندگی ہونی چاہیئے۔
ہر کمیونٹی کے مذہبی حقوق خصوصاً عقیدہ کی آزادی، عبادت اور پابندی، تبلیغ، ایسوسی ایشن تعلیم کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔
اقلیتوں کے لئے قانون سازی کے حقوق کے تحفظ
انتخابی حلقے میں ووٹنگ کسی بھی کمیونٹی کے افراد کی ہونی چاہیے۔
اس سے متعلق قانون سازی لازمی ہے۔
بمبئی پریزیڈنسی کو تقسیم کیا جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنایا جائے۔
آئینی اصلاحات کو صوبہ سرحد اور بلوچستان تک بڑھایا جائے۔
مناسب آئینی ضمانتوں کے ذریعے مسلمانوں کو تمام سرکاری اور غیر سرکاری خدمات میں مناسب حصہ دیا جائے۔
مسلم ثقافت کی حفاظت کی جانی چاہیے اور ان کی تعلیم، زبان، مذہب، خیراتی اداروں کو فروغ دیا جائے۔ مزید برآں، انہیں ریاست کی طرف سے دی جانے والی امداد میں مناسب حصہ دیا جائے۔
مرکزی اور صوبائی کابینہ میں کم از کم ایک تہائی مسلم وزراء کو شامل کیا جائے۔

جناح کے چودہ نکات ملک گیر شہرت کے حامل ہوئے، کیونکہ ان نکات میں جناح نے
اپنی سیاسی و فکری پختگی کا مظاہرہ کیا۔ ہندوستانی عوام کے سماجی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تحفظ اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے آئینی حقوق کا تحفظ اور ان کی بات کرنا اس حقیقت کا ثبوت تھی کہ جناح آئین پر یقین رکھتے تھے۔
جناح نے اپنے چودہ نکات کے ذریعے نہ صرف بطور وکیل و سیاست دان بلکہ بطور ریفارمر یعنی مصلح قوم خود کو منوایا، ایک ایسی سرزمین جہاں مرد و عورت کی مذہبی بنیادوں پر تکریم کی جاتی تھی، اور اقلیتوں کو بطور غلام برتا جاتا تھا، انسانوں کو بطور انسان ایک برداری سمجھنے کے بجائے
مختلف قومیتوں کے حوالے سے شناخت کیا جاتا تھا بلکہ ابھی بھی کیا جاتا ہے۔
رنگ، نسل، ذات پات اور جاگیردارنہ نظام رائج تھا، وہاں انسان کو بطور انسان اسکے جمہوری حق کے مطابق تسلیم کروانے کی کوشش کرنا ایک مصلح قوم کا کام ہی ہو سکتا ہے۔ گو ہم پاکستان میں ابھی تک جاگیرداری نظام سے خلاصی نہیں پاسکے ہیں لیکن پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد
اگر جناح کی گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کی تقریر پر عمل درآمد ہو تو ہم وہ پاکستان بنا سکیں گے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور اس خواب کو قائد اعظم نے پاکستان کی صورت تعبیر کر دیا۔
گیارہ اگست کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا۔
اسمبلی کے دو کام ہیں:
ایک عارضی آئین لکھنا اور اس دوران ملک پر حکومت کرنا۔
شہریوں کے مسائل حل کرنا۔
اس ضمن میں انہوں نے پاکستان کی تکمیل کے فورا بعد پیش آنے والے مسائل کی فہرست پیش کی تھی۔
تھا۔
ارکان اسمبلی کا دوسرا اہم کام پاکستان کے عوام کے لئے امن و امان قائم رکھنا، جان، مال کا تحفظ کرنے کے لئے بہتر قانون سازی کرنا ہے۔
پاکستان میں ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے کی آزادی ہوگی۔ ریاست شہریوں کے درمیان عقیدے کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرے گی۔
قائد اعظم کی تقریر کا تجزیہ کیا جائے تو ایک ایسے سیاست دان، مفکر، مصلح قوم اور نابغہ روزگار رہنما کی سوچ نظر آتی ہے جو نہ صرف اپنے ملک کے لئے بلکہ انسانیت کے بھی فکرمند اور مہربان نظر آتا ہے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد نوزائیدہ مملکت کو لاقانونیت، بلیک مارکیٹنگ، رشوت ستانی اور اقرباء پروری کا سامنا تھا، اور قائد اعظم ان تمام عوامل کو قومی و سماجی لحاظ سے ناپسند فرماتے تھے۔ اور ان مسائل کو انہوں نے پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گردانا اور ان عوامل کے خاتمے پر زور دیا تھا۔
گیارہ ستمبر سن انیس سو اڑتالیس میں قائد اعظم کی وفات کے بعد مملکت پاکستان بے شک قائم و دائم ہے لیکن بدقسمتی سے ہم قومی سطح پر قائد اعظم کے سنہرے اصولوں پر عمل درآمد نہیں کر سکے ہیں۔
آج پچیس دسمبر قائد اعظم کے یوم پیدائش کے موقع پر ملک کے باشعور و بالغ فرد کو یہ عہد کرنا چاہیئے کہ وہ قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر کے تمام نکات پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے کوشاں ہو گا اور اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کرے گا۔
مطربہ شیخ

اپنا تبصرہ بھیجیں