نازیہ آصف کالم نگار و کہانی کار ہیں۔ مختلف رسائل، اخبارات و جرائد میں لکھتی رہتی ہیں۔

عنوان۔ ۔ ۔ ۔قائد اعظم کی شخصیت ،اور اگر آج قائد زندہ ہوتے، تو کیا کرتے ۔ ۔ ۔؟

ایک ہمہ جہت شخصیت ، بیسویں صدی کے بہترین قانون دان ، ، آئین پسند رہنما، زیرک سیاستدان ،ممتاز پارلیمینٹیرین اور برصغیر پاک و ہند کی شکستہ دل قوم کے بہترین وکیل ، جنھوں نے دنیا کے دھارے کو بدل دیا ، اس فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہجوم کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کر کے نہ صرف ایک قوم بنایا بلکہ انھیں اپنے دین اور عقیدے کے مطابق رہنے کے لیے الگ ملک بھی دے دیا۔ شیکسپیر نے کہا تھا
“کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنے کاموں سے خود کو عظیم بنا لیتے ہیں”
سٹینلے والپرٹ لکھتا ہے کہ” کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کر دیتے ہیں, جبکہ کچھ دنیا کے نقشے کو ہی بدل دیتے ہیں اور بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو کسی نئ قومیت پر ملک تعمیر کرتے ہیں اور جناح صاحب نے یہ تینوں کام کر دکھائے۔
بلاشبہ قائد اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ مندرجہ بالا دونوں بیانات پہ بدرجہ اتم پورا اترتے ہیں ۔
یہ آپ کی شخصیت کی مضبوطی اور سحر تھا کہ جب آپ نے ہندوستان پہ صدیوں سے قابض قوم کو للکارا تو تو یہ سارا جبر ٹوٹ گیا۔ آپ کی انتھک کوششوں کے آگے مسلمانان ہند کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے برصغیر کا جغرافیہ ہی تبدیل ہو گیا۔
اور اگر یہ پوچھا جائے کہ اگر عصر حاضر میں قائد موجود ہوتے تو کیا کرتے ،

     بے اثر ہو گئے سب حرف نوا تیرے بعد 
         کیا کہیں جو احوال ہوا تیرے بعد 
 تو بھی دیکھے تو زرا دیر کو پہچان نہ پائے
  ایسی بدلی ، کوچے کی فضا تیرے بعد 
 اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی 
    ہم سے ایک خواب،  سنبھالا نہ گیا تیرے بعد 

میرا یہ ماننا ہے کہ اگر قائد ہوتے تو ملک عزیز کے موجودہ حالات ہی نہیں ہوتے ۔
ایک ایسا لیڈر جو اپنی بہن کی منگوائی گئ ایک کرسی کا بل سرکاری بل میں شامل کرنے سے انکار کر دیتا ہے ،
ایک ایسا منتظم جو انتہائ علالت میں سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پہ آتا ہے اور وقت پہ نہ آنے والوں کی سیٹیں اٹھوا دیتا ہے ۔جس پہ باقی سب کے ساتھ ملک کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھی سارا وقت کھڑے رہنا پڑتا ہے ۔
ایک ایسا حاکم جو سرکاری میٹنگ میں شامل ہونے والے افسران کی چائے بسکٹ سے تواضع کرنے سے منع کر دیتا ہے وہ دوسرے حکام کی کرپشن کیونکر برداشت کر سکتا تھا ۔وہ وقت کا بے جا ضیاع کیوں کر برداشت کرتا ۔
آج بھی غور کریں تو وقت کا ضیاع اور کرپشن ہی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں، کرپشن ہمارے رگوں و پے میں سرایت کر چکی ہے ۔ ہر محکمہ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا یے ۔قائد ہوتے تو شفافیت ہر ادارے کا طرہ امتیاز ہوتی اور ملک زبوں حالی میں اول نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی صف اول میں ہوتا ۔
عالمی منظر نامے پہ ہم یوں بے توقیر نہ ہو رہے ہوتے ، ہماری خارجہ و داخلہ پالیسیاں دوسروں کی دست نگر نہ ہوتیں، فرقہ واریت کا ناسور ہمیں ڈس نہیں رہا ہوتا، موروثی سیاست پنپ نہی رہی ہوتی ، ادارے ریاست کی بجائے شخصی غلام نہ ہوتے ، ہوس، لوٹ کھسوٹ، لالچ نے ہمیں برباد نہ کیا ہوتا ، مگر افسوس ہم آنکھوں دیکھے مکھی پہ مکھی مارے جا رہے ہیں ۔
ہمیں وقت انتباہ کر رہا ہے کہ اب بھی اگر ہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو مؤرخین بہت جلد” اسباب زوال مغلیہ سلطنت ” کے ساتھ ہمارے زوال کے اسباب بھی لکھ رہے ہوں گے .
۔ قائد کی حیات ہمارے لیے روشن مینارے کی حیثیت رکھتی ہے آج بھی ہم اگر اس کو اپنا قبلہ مان لیں تو ہمارے سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
آخر میں میں بس اتنا ہی کہہ سکتی ہوں
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ ء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔
نازیہ آصف

اپنا تبصرہ بھیجیں