میری پیاری مام میری استاد
اور پرنسپل میری نانو جان
میں گارڈن کے ROOM میں بیٹھی اڑتی رنگ برنگی خوبصورت تتلیوں کو دیکھتی ہوئی نا جانے کب انکے ساتھ اڑتی ہوئی ماضی کے کئی سالوں پیچھے چلی گئی. جب میرے آنکھ کھلی تو سورج خوشگوار کرنیں میرے چہرے سے اس وقت ٹکرائیں جب مام کی جادوئی آواز جس میں عجیب قسم کی محبت کی شیرینی شامل تھی میری سماعتوں سے ٹکرائی کہہ رہی تھیں ارحم اٹھ جاؤ آج سکول نہیں جانا . مام کو کیا پتہ کہ میں تو کب کی جاگی ہوئی ہوتی ہوں میں تو بس آنکھیں بند کیے انکی اس آواز کی منتظر ہوتی ہوں . یہی آواز کی بازگشت ہے جو اب میرے حال کو بے حال کر دیتی ہے . اب بھی سالوں بعد میں اسی آواز کو ہر صبح سنتی ہوں مگر اب یہ صرف آواز کا جیسے عکس ہو .
“”تمھارے بغیر جینا نا ممکن نہیں دشوار ہے
مگردل کو سکوں ہے کہ اسکو طاقت دیدار ہے “”
اس خواب نما احساس سے میں اچانک جیسے جاگ گئی جب میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا . اس ہاتھ کے لمس کو میری روح پہچانتی ہے یہ میری پیاری نانو جان تھیں جو پوچھ رہی تھیں کہ ارحم بیٹا کیا سوچ رہی ہو کن خیالوں میں گم ہو . نانو جان میرا سارا احوال دل جانتی ہیں مگر پھر بھی میرے غم کو غلط کرنے کے لئے میری رہ پر لگے اس گہرے زخم کو جو مام کی جدائی کی وجہ سے مجھے ملا ہے بھرنے کے لئے کوشش کرتی ہیں کہ میری سوچوں کا محور بدلے اور میری اداس آنکھوں میں خوشیاں رقص کرنے لگیں . میں اپنی جان سے پیاری نانو جان کو کیا بتاؤں کہ جب میں اپنی مام کے ساتھ اپنے خیالوں میں ہوتی ہوں تو شاید میری آنکھوں کی نمی سے میری اداسیاں عیاں ضرور ہوتی ہیں مگر میری روح ان وصل کی گھڑیوں میں پر سکون ہوتی ہے . میرا دل ان خوشگوار بیتے دنوں کو ضرور تلاشتا ہے جن کا لوٹ کر آنا اب نا ممکن ہے.
میری مام میری بہترین استاد تھیں ان سے ہی میں نے انسانوں سے اور دوسری مخلوقات سے محبت کرنا سیکھا . انہوں نے مجھے بہادری سے زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کا درس دیا . میں دنیا کے کسی حصے میں جاؤں میری مام کی دعائیں ہر جگہ میرا ساتھ ھوتی ہیں اور مجھے اپنے حصار میں لئے رکھتی ہیں . میری مام کی شخصیت کے اور انکے اصول میرے لئے اس مضبوط چٹان کی مانند ہیں جن کے سہارے میں آج مضبوطی سے نہ صرف کھڑی ہوں بلکہ اپنی زندگی کے ہر دکھ درد غم فکر کو ہیچ جانتی ہوں . سواے مام کے وچھوڑے کے غم کے .
رات کو جب آسمان پر ستاروں کو دیکھتی ہوں تو میں سوچتی ہوں کہ یہ تو جنت کی کھڑکیاں ہیں جن میں سے ہمارے چاہنے والے جو ہم سے بچھڑ گئے ہیں ہمیں دیکھتے ہیں . ان لاتعداد روشن کھڑکیوں میں سے میں اپنی مام کی جنت میں کھلی ہوئی کھڑکی کو ڈونڈھتی ھوں تو سب سے روشن سب سے بڑی کھڑکی جو مجھے نظر آتی ہے وہ جگمگاتا ہوا فلک پر چاند ہے اور یہی میری مام کی روشنی ہے. اس کے علاوہ تو اور کوئی روشنی میری مام کی نہیں ہو سکتی کیونکہ ‘ماہ رخ ‘ چاند کو ہی تو کہتے ہیں.
میں نے اپنی پیاری مام کے ساتھ اپنی زندگی کے بہت تھوڑے سال گذارے مگر اس مختصر وقت میں بھی میری مام نے مجھے صدیوں کے سبق پڑھا دئیے . انکی یادوں کے سامان میرے دل کے اندر خانے میں محفوظ پڑے ہیں. جن کو میں نے سنبھال کر رکھ چھوڑا ہے . نجانے کیسے انکی یادوں کے ان ذخائیر میں سے صندل اور کستوری کی ملی جلی دل موہ لینے والی خوشبو اٹھتی رہتی ہے جس نے میرے خیال کے دھاگوں کو میری مام کے ہر وقت میرے ساتھ ہونے کے احساس کو باندھا ہوا ہے .
دیکھو کس شوق سے اس خزانے کو سنبھال رکھا ہے
اس سال کا نام بھی تیری یادوں کا سال رکھا ہے
اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی تحفے مجھے عطا کیے ان سب میں سے بہترین تحفہ میری مام تھیں اور ہمیشہ رہیں گیں. ایک ماں بچے کا ہاتھ بھلے بہت مختصر وقت کے لئے ہی پکڑے مگر اسکے ہاتھوں کا لمس بچے کے دل اور روح کو ہمیشہ کے لئے پکڑے رکھتا ہے . یہی معامله میرے اور میری مام کا بھی ہے . میں اکثر سوچتی ہوں کہ انسانی وجود میں دنیا جہان کی محبتیں ماں کے وجود سے ہی پھوٹتی ہیں اور اس ایک وجود ہی کی طرف لوٹتی ہیں . دنیا بھلے آپکو جھوٹا غلط انسان تصور کرے مگر ایک ماں آپکو خالص محبت بھرے لہجے میں اپنا بیٹا یا بیٹی کہہ کر ہی پکارے گی .
میری یہ یقین ہے کہ آدم و حوا سے لیکر تا قیامت تک اس رؤ زمین پر آنے والی سب ماؤں کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں ہی جگہ دینی ہے کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی مخلوق کے لئے بنائی ہوئی جنت کو دوزخ میں نہیں ڈال سکتا . دنیا بھر کی ماؤں کو اگر موقع دیا جائے کہ وہ ہر ملک پر حکومت کریں تو زمین پر کوئی جنگ نہ ہو اور اس زمین کا چپہ چپہ صرف امن اور محبت سے بھر جائے .
میری مام کا جو سب سے بڑا احسان مجھ پر ہے وہ مجھے میرے رب سے آشنائی کا درس ہے مجھے وہ طریقے سلیقے بتائے اور سکھائے جن پر چلتے ہوے میں اپنے رب کے قرب کو پانے کی راہیں تلاشتی رہتی ہوں. اس لیے تڑکے تڑکے میں اپنے رب سے بھی اسکی رحمت اور فضل و احسان سے اس سے بھی ملا قات کرتی ہوں اور بعد میں اپنی مام سے بھی کچھ اس طرح باتیں کرتی ہوں
درماندگئی الفت میں کوئی نظر اٹھائے بس دروازے تک
سوچ بھی یاد کی چادر اوڑھے جائے بس دروازے تک
رسیدہ محبت کے ٹکڑوں کو چاندنی میں بھگو کر
جوڑ جوڑ کے کوئی اک تصویر بنا ئے بس دروازے تک
کھڑکی سے دور افق پر چاند بھی محو تماشہ ھے
باہر گھپ اندھیرا اور ایک گھر نوروں نہائےبس دروازے تک
روشن فلک سے چمکتے ستارے اترنے لگے ہیں راستوں پر
کس کو جگنو چھوڑنے آ ئے میرے گھر کے بس دروازے تک
تڑکے تڑکے پیا ملن کی پیا س جب بڑھتی جائے
باد صبا اسکی خوشبو چھڑکا ئے بس دروازے تک
اے میرے پیارے اللہ میری پیاری مام کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما اور انکے درجات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جا – آمین
ارحم علیم