تاریخ کی آنکھ نے انسانیت کے یوں پڑخچے اڑتے کبھی نہ دیکھے تھے: مقررین کا خطاب

اسلام آباد: ادیب و دانشور ایسا آئینہ ہیں جو اپنے معاشرے کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔ انکا اپنے آس پاس وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہونا فطری امر ہے۔ لکھنے والا وہی لکھے گا جیسا محسوس کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار ایوان قائد میں معروف ادیب و دانشور ڈاکٹر عبد الوحید رانا نے نظریہ پاکستان کونسل کے زیر اہتمام حالات حاضرہ پر منعقدہ مکالمہ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اہل قلم معاشرتی راہنمائی کا حقیقی وسیلہ ہیں اس لیے انہیں روائتی سوچ ترک کرکے اپنے آپکو انسانی بقاء و فلاح کیلئے وقف کر دینا چاہئیے۔

تقریب کے مہمان خصوصی معروف شاعر و ناول نگار اختر رضا سلیمی نے کہا کہ مجھے ہر وہ تہوار اور خوشی کا موقع اچھا لگتا ہے جو انسانوں کو آپس میں جوڑتا ہو۔ عیدالفطر بھی مسرت کا ایسا ہی موقع ہے جو عزیز رشتہ داروں سے ملاقات کا وسیلہ ہے۔ تقریب کی مہمان اعزاز معروف شاعرہ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر شازیہ اکبر نے کہا کہ ہمیں آج میں جینا چاہئیے اور اپنے ملکی و بین الاقوامی مسائل گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے چاہئیں۔ آج مسائل بارود سے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پھر ہم میں اور غاروں میں رہنے والے انسانوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ مجلس مشاعرہ کی صدارت کرتے ہوئے معروف شاعرہ و افسانہ نگار فرخندہ شمیم نے کہا کہ آج کے اس اہم مکالمہ میں جس نے جو کہا خوب کہا۔ ہمارے دل میں بہت جگہ ہے۔ ہم دوسروں کے دکھ کی تصویریں بناتے ہیں۔ ہم صرف جمال کو ہی نہیں کمال کو بھی دیکھتے ہیں اور خیال میں، کمال ہی جمال ہے۔ قبل ازیں این پی سی کے ڈائریکٹر پروگرام و میزبان حمید قیصر نے مکالمے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عید اداس کر گئی۔ غزہ، فلسطین و کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ایسے ہیں کہ ہم کھل کر مسکرا بھی نہیں سکتے۔خوشیاں ہمیں راس نہیں آتیں۔ ایسے میں حساس لکھنے والوں کا عید پر اداس ہو جانا فطری ہے۔ معروف شاعر و دانشور ڈاکٹر مظہر اقبال کا کہنا تھا کہ عید کے دوران غزہ میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے نتیجے میں ہم پر کھانا پینا حرام ہو جانا چاہئیے تھا۔ تاریخ کی آنکھ نے انسانیت کے یوں پڑخچے اڑتے کبھی نہ دیکھے تھے۔ اب بھی اگر کوئی آنکھ نم نہیں ہوتی تو سمجھیں وہ آنکھ پتھر کی ہے۔ معروف افسانہ نگار سید محمد علی نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پلیٹ فارم سے نئی نسل کو بانیان تحریک پاکستان کی قربانیوں اور نظریہ پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ معروف شاعرہ و دانشور رباب تبسم نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں دفتر کے سیکیورٹی عملے میں سویاں تقسیم کرکے انہیں عید کی خوشیوں میں شریک کرتی ہوں۔ معروف شاعر و میزبان مشاعرہ پروفیسر عرفان جمیل نے کہا کہ عیدالفطر اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کیلئے بہترین انعام ہے۔ ہمیں زندگی کے مسائل و مشکلات کے باوجود اللہ کے اس انعام کو خوشی خوشی منانا چاہئیے۔ معروف شاعر و دانشور خرم خلیق کا کہنا تھا کہ مجھے خوشی کے اس موقع پر اپنے بچھڑ جانے والے شاعروں کی یاد نے بہت ستایا۔ جیسے اختر شیخ، شیدا چشتی، میر تنہا یوسفی اور اصغر عابد ابھی کل تک ہمارے ساتھ مشاعروں میں شریک ہوتے تھے مگر آج وہ ہم میں نہیں رہے۔ پروفیسر سید تنویر حیدر نے کونسل کی اس مساعی کو سراہا جس نے انہیں حالات حاضرہ پر کھل کر بات کرنے کا موقع فراہم کیا۔ معروف لکھاری افشاں عباسی نے کہا کہ بلاشبہ نظریہ پاکستان کونسل ایک اہم پلیٹ فارم ہے جس نے ہر اہم قومی دن پر ہمیں مختلف الخیال ہونے کے باوجود ہمیں غور وفکر کیلئے یکجا کیا اور ہمیں اظہار خیال کی دعوت دی۔ دوسری نشست محفل مشاعرہ پر مشتمل تھی جسکی صدارت معروف شاعرہ فرخندہ شمیم نے کی۔ مشاعرے میں جن شعراء و شاعرات نے کلام پیش کیا ان میں (میزبان مشاعرہ) پروفیسر عرفان جمیل، محمد گل نازک، افشاں عباسی، شیریں سید، مسرت شیریں، رباب تبسم، پروفیسر سید تنویر حیدر، جمال زیدی، ڈاکٹر مظہر اقبال، خرم خلیق، ڈاکٹر شازیہ اکبر، اختر رضا سلیمی اور فرخندہ شمیم شامل تھے۔ مشاعرے کے اختتام کے ساتھ ہی میزبان نے نظریہ پاکستان کونسل ٹرسٹ کی انتظامیہ کی جانب سے تمام مہمان شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں